میری تصویر فضائوں میں اچھالا نہ کرے اپنا غصہ وہ ہوائوں پہ نکالا نہ کرے اُس کی بانہوں میں تو کچھ اور بکھر جاتی ہوں اُسے کہدو کہ مجھے ایسے سنبھالا نہ کرے وہ اگر چاہے میری آنکھیں بھی لے سکتا ہے غیر سے مانگ کے یوں گھر میں اجالا نہ کرے بھاپ بن کر نہ فضائوں میں کہیں اڑ جائیں یاد کی آنچ پہ جذبوں کو اچھالا نہ کرے زیست میں رہتا ہے وہ شخص تو سانسوں کی طرح وسوسے مجھ سے جدائی کے وہ پالا نہ کرے یہ جو حالات ہیں دشمن کی کوئی سازش ہے اِک غلط فہمی کو وہ آنکھ کا جالا نہ کرے میں بھی انساں ہوں کوئی اس کو بتائے زریں آنکھ میں رکھے سوالوں کو وہ ٹالا نہ کرے