پھر پلٹ کر نہ آنے والے ہیں ہم بہت دور جانے والے ہیں رنگ و خوشبو کی آرزو کرتے دل کا خرمن جلانے والے ہیں جو بنائے تھے کتنے چائو سے وہ گھروندے گرانے والے ہیں اپنی پلکوں سے تیری راہوں کے سارے کانٹے اٹھانے والے ہیں ہم غمِ زندگی کے مارے ہوئے تیری محفل سجانے والے ہیں دل کی بازی میں ہم جواری تو اپنا سب کچھ لُٹانے والے ہیں قتل گاہِ حیات میں ساحل اپنے خوں سے نہانے والے ہیں