موسمِ گُل کی حقیقت کا پتا دیتی ہے

Sight

Sight

موسمِ گُل کی حقیقت کا پتا دیتی ہے
کچھ نہ کچھ راز تو غنچے کو صبا دیتی ہے
تیری خاموش نگاہوں کی فسوں کاری بھی
تیرا احوالِ غمِ ہجر سنادیتی ہے
ہم تجھے بھول نہ پائے ہیں مگر کیا کہیے
زندگی وقت کی تقسیم سکھا دیتی ہے
تیری یادوں کے شبستان میں تنہائی بھی
کتنے تارے میرے آنچل میں سجادیتی ہے
اِس زمانے سے رہ و رسم کی رغبت اکثر
عمر بھر خود سے بچھڑنے کی سزا دیتی ہے
ایک ہم ہیں کہ کناروں سے پھسل جاتے ہیں
ایک وہ ہیں کہ جنہیں موج بچا دیتی ہے
اے میرے حالِ پریشان سے غافل سُن لے
میری بے چارگی پتھر کو رُلادیتی ہے

زریں منور