راقم کچھ عرصہ ذاتی بنا پر ادیب کی مصروفیات سے دور رہا ۔اب جب کئی ہفتوں بعد کچھ دن پہلے قلم پکڑ کر لکھنے بیٹھاتو قلم نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔لکھنا ایک تخلیقی عمل ہے۔مگر تین روز کوشش کرنے کے بعد پتہ چلا کے راقم کی تخلیقی صلاحیتیں جامد ہو کر رہ گئی ہے۔.پھر میں نے ذہنی طاقت کی تکنیک کو اپنایا ۔میں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے لیے اپنی روح کے جاگنے کا انتطار نہیں کیا۔ میز پر بیٹھ گیا اور ایک مشین کی طرح لکھنا شروع کر دیا۔میرے بازوکام کررہے تھے۔میری انگلیاں حرکت کر رہی تھی۔کچھ دیر بعد میرے ذہن نے بھی میراساتھ دینا شروع کر دیا۔لیکن جن دنوں میں نہیں لکھ رہا تھا ،ان دنوں مجھے ایک آئیڈیاآیا تھا لیکن وہ اب بھول چکا ہے۔لیکن جب میں مشینی انداز میں لکھنے بیٹھا تو بہت سے نئے آئیڈیا آنے لگے۔عمل سے ایک نیا عمل جنم لیتا ہے،یہ ایک فطری قانون ہیں۔
کوئی کام بھی خودبخود نہیں ہوتا۔ہم روزانہ بہت سے کام مشینی طرز پر ہی کرتے ہے۔ آپ اپنی ذہن کو کار کی طرح گئیر میں ڈالیںتو یہ چلتا ہی جا ئے گا۔ مجھے آج خوشی محسوس ہورہی ہے ،کیونکہ آج میں نے کچھ نیا سیکھ لیا ہے۔راقم کچھ روز پہلے جو مایوس تھا اسے کامیابی مل گئی تھی ۔آپ سوچ رہے ہو گے بھلا کیسی کامیابی ؟کیونکہ لفظ مایوسی کے ساتھ تو ناکامی ۔اداسی اور نا امیدی وابستہ ہے۔جہاں تمام راستے بند ہو جاتے ہے ۔کسی بھی کام میں ناکامی ،مایوسی کے بعد نہ صرف دل ٹوٹ جاتا ہے بلکہ اس کام کو دوبارہ کرنے کی ہمت اور جذبہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔لیکن یہ سب صرف آپ کے سوچنے کا انداز ہے۔ ناکامی ہمیں ایک نیا راستہ دکھاتی ہے۔ایک ایسا راستہ جو آج تک ہماری نظروں سے اوجھل ہوتا ہے جس طرح کوئی سیلز پرسن اپنی پروڈکٹ فروخت کرنے میں ناکام رہتا ہیں تو وہ کوئی اور نیا طریقہ استعمال کرتا ہے۔
ایک نیا طریقہ سیکھتا ہے کہ وہ نئی حکمت عملی استعمال کر کے اپنی کارگردگی میں بہتری لا سکتا ہے۔جس طرح اگر ہم نوکری کے لیے کہیں انٹرویو دینے جاتے ہے تو ہم سیکھتے ہیں کہ اگلی بار ہم اس میں مزید بہتری لا سکتے ہیں۔کہ ہم اس سے بھی زیادہ بہتر ہو۔ناکام ہونے کے بعد ہمیں بہت سے ایسے مختلف اورنئے راستے ملتے ہیں جن کے بارے میں ہم نے کبھی سوچابھی نہیں ہوتا،ناکامی ہمیں نیے راستوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔نئی تراکیب اپنا کر ان پر عمل پیرا ہو کر ہم بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہے۔لہذا ناکامی ہمارے لیے راستے بند نہیں کرتی بلکہ یہ ہمارے لیے بہت سے نئے راستے اور حل واضع کر دیتی ہے۔اس لیے ہمیں اپنی ذات کا ادراک کرنا چاہیے۔شاید انسان کی سب سے بڑی کمزوری اپنی زات کا ادراک نہ کرنا ہی ہے۔
ذات کا ادراک نہ ہونے سے انسان بہت سی کمزوریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ جب ہم میں سے کوئی اخبار پر نوکری کااشتہار دیکھتا ہے تو وہ ملازمت اسے بہت پسند آتی ہے لیکن وہ اس نوکری کو حاصل کرنے کے لیے کچھ نہیں کرتا،کیونکہ وہ سوچتا ہے کے وہ اس نوکری کے قابل نہیں ہے١یسا کیوںہم لوگ کیوں احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہے؟ اس دنیا میں ہر انسان کو کامیاب ہونے کا حق ہے ،پھر یہ تاثر کیوں عام ہے کہ ہم یہ نہیں کر سکتے ہم وہ نہیں کر سکتے ،ہم سب کچھ کر سکتے ہیں۔ہمیں بس ہمت ،حوصلہ،لگن ، جذبہ ،اور ثابت قدم ہو کر محنت کرنا ہو گی ،دیکھئیے گا ہماری منزل ہمارے قدم چومے گی۔