تحریر : شاہد شکیل مینوکا کسی مشین، دوا یا انسان کا نام نہیں بلکہ نیوزی لینڈ میں پائے جانے شہد کا نام ہے، شہد صرف ایک صحت مند غذا ہی نہیں بلکہ چینی کا متبادل اور دوا کے طور پر استعمال ہونے والا قدرت کا انمول تحفہ بھی ہے۔ نیوزی لینڈ میں مینوکا نامی ٹہنیوں سے دریافت کیا گیا اور اسی نام سے پکارا جاتا ہے صدیوں پرانا اور آزمایا ہوا یہ شہد کسی تعارف کا محتاج نہیں کیونکہ حال ہی میں محقیقین نے کئی تجزیوں اور تجربات سے ثابت کرنے کے بعد اس شہد کو صحت کیلئے نہایت مفید قرار دیا ہے،ماہرین کا کہنا ہے یہ شہد اینٹی بائیوٹک کا نعم البدل ہے جو مذاحمتی جراثیم کے خلاف ایک اہم دوا کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے،اس شہد کا استعمال نو ہزار سال پرانا ہے اور اس زمانہ قدیم سے اسے غذا کے علاوہ دوا سمجھ کر بھی استعمال کیا جاتا ہے،نیوزی لینڈ کے باشندوں کا کہنا ہے جو اس شہد کو صرف ایک غذا سمجھ کر استعمال کرتا ہے وہ غلطی پر ہے۔
کیونکہ یہ شہد محض ایک غذا ہی نہیں دوا بھی ہے۔مختلف جائزوں اور تحقیق سے واضح طور پر اس شہد سے کئی بیماریوں کا علاج ممکن ہوا اور صحت کے لئے مثبت قرار دیا گیا،ماہرین کا کہنا ہے اس شہد کے ذائقے سے زیادہ اسے شفایابی کا قدرتی علاج تسلیم کیا جاتا ہے،اس شہد میں قدرتی اجزاء کے علاوہ میتھل گلائی اوکسل (ایم جی او) شامل ہے جو مذاحمتی جراثیم کے خلاف نہایت موثر ہے ،ماہرین کئی سالوں سے خبردار کر رہے ہیں کہ عام استعمال کی اینٹی بائیوٹک ادویہ اگر ایک طرف علاج کا ضامن ہیں تو دوسری طرف کئی ایسے جراثیم کو بھی جنم دیتی ہیں جن کے استعمال سے مریض کی صحت مزید بگڑ سکتی ہے۔
لیکن نئی تحقیق کے بعد نیوزی لینڈ کا یہ قدیم شہد جس میں ایم جی او شامل ہے کئی جراثیم کا خاتمہ کرتی ہے بدیگر الفاظ مینوکا ٹہنی سے دریافت شدہ یہ قدرتی شہد ایک اینٹی بائیوٹک ہے۔نیوزی لینڈ کے قدیم باشندے ماؤرِس اس شہد کے بارے میں آگاہ تھے اور اسے عام و روزمرہ استعمال کے علاوہ روائتی دوا کے مقاصد کے طور پر بھی استعمال کرتے اور قدرت کا انمول تحفہ اور معجزہ قرار دیتے۔
Honey
محقیقین کا کہنا ہے مینوکا ٹہنیوں کے میں خاص طور پر ایم جی او پایا جاتا ہے کیونکہ شہد کی مکھیاں جب اس کی تیاری میں مصروف ہوتی ہیں تو ایک مخصوص مقدار میں جو شہد نما لیکویڈ تیار ہوتا ہے وہ عام طور پر مذاحمتی جراثیم کے خلاف اپنا کردار ادا کرتا ہے ،تحقیق کے مطابق ایک کلو گرام شہد کی تیاری کے بعد آٹھ سو ملی گرام ایم جی او شامل ہوتا ہے اور یہ ہی وہ نسخہ ہے جو علاج کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جبکہ عام مارکیٹ میں دستیاب شہد میں صرف بیس ملی گرام ایم جی او شامل ہوتا ہے۔سائنس اور میڈ یسنز کے مطالعے میں بتایا گیا کہ دنیا کے کئی ہاسپیٹلز میں بھی یہ شہد استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے اندر پائے جانے والی ایم جی او اور دیگر اجزاء اینٹی بائیوٹک کے طور پر کام کرتے ہیں۔
بعض خطرناک جراثیم،بلڈ پوائزن ، مثلاً سیپسس وغیرہ پر مینوکا شہد کے ذریعے قابو پایا جا سکتا ہے۔نیوزی لینڈ کے ڈاکٹروں کی رپورٹ کے مطابق واضح طور پر نتائج برآمد ہوئے کہ مینوکا شہد سے ہاسپیٹلز میں پائے جانے والے جراثیم مثلاً سٹیپی لوکوکُس کے خلاف موثر ثابت ہوتا ہے علاوہ ازیں اس میں پائے جانے والے ایم جی او سے انسانی جسم کے خلیات کی دیواروں میں شامل مختلف بیکٹیریا کو بھی مکمل طور پر ہلاک کرنے کی طاقت رکھتا ہے،بعض ہسپتالوں میں السر کے علاج اور شفایابی کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔
مینوکا شہد کو عام استعمال کے علاوہ چینی کا متبادل ہی نہیں سمجھا جاتا بلکہ اسکے دوہرے فائدے بھی ہیں کھانے کے علاوہ اس میں چند لیمن کے قطرے مکس کرنے کے بعد چہرے پر لگانے سے جلد نرم اور ملائم ہوجاتی ہے لیکن جلد پر استعمال کرنے سے پہلے سکن ڈاکٹر سے رجوع کرنا لازمی ہے۔