تحریر: فرخ شہباز وڑائچ 29 ستمبر 1936ء کو اٹلی میں پیدا ہونے والا معمولی بینکر کا یہ بیٹا 1994ء میں پہلی مرتبہ اٹلی کا وزیراعظم منتخب ہوا۔ سیلویو برلسکونی 1994ء سے 2011ء تک مختلف ادوار میں تین مرتبہ اٹلی کی وزارت عظمی برلسکونی کے پاس رہی۔ برلسکونی کی حکومت کے سال کل ملا کر 9 سال بنتے ہیں، ان نو سالوں میں اس پر بے شمار الزامات آئے جن میں اختیارات کا ناجائز استعمال، فراڈ، کرپشن سرفہرست تھے۔
یہ 2003ء کی بات ہے جب سیلویو برلسکونی کو بدعنوانی کیس میں عدالت نے طلب کر لیا۔یہ اس وقت کا وزیراعظم تھا آپ اندازہ کیجیے یہ اس کی وزارت عظمی کادوسرا دور تھا جب ہر طرف برلسکونی کے نعرے ہی گونج رہے تھے،یہ اس پر سیخ پا ہو گیا برلسکونی نے عدالت میں طلب کرنے والے ججوں کو پاگل قرار دیدیا۔ برلسکونی کے نزدیک عدالت کا اسے طلب کرنا ہی ججوں کے پاگل پن کا ثبوت تھا۔ اس نے فوری طور پر آئین میں ترمیم کروا کر خود کو عدالت سے وقتی طور پر تو بچا لیا ۔2013ء میں اٹلی کی دو عدالتوں سے دو مختلف کیسز میں بدنام زمانہ سابق اطالوی سیلویو برلسکونی کو نا اہل قرار دے دیا۔
جی ہاں وہی بد عنوانی کے کیس جن کی بناء پر طلب کئے جانے پر برلسکونی نے ججوں کو پاگل کہا تھاٹھیک دس سال بعد یہی کیس اس کی سزا اور نااہلی کا سبب بنے۔یہ 19جون 2012ء کی صبح تھی جب سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سر براہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے وزیرِاعظم کی نااہلی سے متعلق اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کے خلاف دائر سات مختلف درخواستوں پر فیصلہ سنایا ۔ سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے چھبیس اپریل کو یوسف رضا گیلانی کو توہینِ عدالت کا مرتکب پایا اور انہیں عدالت کی برخاستگی تک قید کی سزا سنائی تھی۔یہ فیصلہ وقت کے وزیراعظم کے خلاف تھا ،یوسف رضا گیلانی چار سال تک وزیراعظم رہے اس دوران ان پر اور انکی حکومت پر کرپشن کے بے تحاشا الزامات آئے یہاں تک کہ پیپلز پارٹی کے ایک وزیر نے ٹاک شو میں ”کرپشن پر ہمارا بھی حق ہے” کا نعرہ لگا دیا۔
Yousuf Raza Gilani
مگر اس سب کے باوجود گیلانی صاحب کو وزیراعظم کے منصب سے ہاتھ دھونا پڑا۔جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں قائم بینچ نے بدعنوان سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیا تو پریس کونسل آف انڈیا کے چیئرمین مارکنڈے کاجو نے پوری پاکستانی سپریم کورٹ کو پاگل قراردیدیا۔دلچسپ بات یہ ہے عدالت کے اس فیصلے پر پی پی پی ہم قانون کا احترام کرتے ہیں کا وردِ کرتی رہی جیسے ہی افتخار چوہدری چیف جسٹس کے عہدے سے ریٹائر ہوئے انہوں نے جسٹس افتخار چوہدری پر کیچڑ اچھالنا شروع کر دیا۔
جسٹس وجیہ الدین احمد یکم دسمبر 1938ء کو بھارت کے شہر نیو دہلی میں پیدا ہوئے۔ان کے والد بھی جج تھے ان کی ایمانداری کی مثالیں بھارت میں دی جاتیں تھیں۔جسٹس وجیہ الدین نے قانون کی تعلیم حاصل کی ،یہ جج بنے یہ ترقی کرتے کرتے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بن گئے،اس دوران ان کے اوپر کوئی الزام نہیں لگا۔ان کا ٹریک ریکارڈ صاف شفاف تھا۔یہ ریٹائر ہوکر بھی ایکٹوسٹ رہے یہ وکلاء تحریک کے راہنمائوں میں شامل رہے۔یہ مارشل لاء اور فوجی آمروں کے سخت ترین مخالف ہیں،انہیں 2007ء میں گرفتار بھی کیا گیا ۔جسٹس وجیہ الدین عدالتی تاریخ میں بہت بڑا نام رکھتے ہیں۔بعد ازاں انہوں نے پاکستان تحریک انصاف جوائن کر لی ،جسٹس وجیہ الدین کا خیال تھا انہوں نے جس انصاف پسندی کا بول ہمیشہ بولا وہ بول صرف انصاف کے نام پر بننے والی پارٹی ہی سن سکتی ہے۔
پی ٹی آئی نے انہیں عزت سے نوازا انھیں صدارتی امیدوار بنایا۔پاکستان تحریک انصاف نے پارٹی کے اند الیکشن کروائے ،انٹرا پارٹی الیکشن ہونے کی دیر تھی کہ ہر طرف سے دھاندلی کے الزامات کی گونج سنائی دینے لگی۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے پارٹی الیکشن میں بدعنوانی کے الزامات سامنے آنے پر جسٹس وجیہ الدین احمد کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی ٹریبونل قائم کیا۔ تحقیقات شروع ہوئیں تو عمران خان کے طوطے اڑنے لگے کیونکہ وہ جس جہانگیر ترین کے طیارے میں اڑتے پھرتے تھے وہی زد میں آنے لگے۔
Iftikhar Chaudhry
انہوں نے ٹریبونل تحلیل کرنے میں عافیت جانی مگر پاکستانی عدلیہ پر دیانت کی چھاپ چھوڑنے والے جسٹس وجیہ الدین احمد ان کے لئے جسٹس افتخار چوہدری ثابت ہوئے۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ عمران خان کے ساتھ وہی کیا جو افتخار چوہدری پرویز مشرف اور یوسف رضا گیلانی کے ساتھ کرچکے تھے بلکہ ٹریبونل کی کارروائی آگے بڑھاتے ہوئے جہانگیر ترین اور نادر لغاری کو پارٹی سے نکالنے جبکہ پرویز خٹک اور علیم خان کی بنیادی پارٹی رکنیت منسوخ کرنے کا فیصلہ بھی سنادیا۔جیسے ہی ٹربیونل نے فیصلہ سنایا کے پی کے کے وزیراعلی اور پی ٹی آئی کے سینئر رہنما پرویز خٹک نے جسٹس وجیہ الدین احمد کو پاگل قرار دے دیا۔پارٹی رہنمائوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے کارکنان نے جسٹس وجیہ الدین کے ساتھ ٹھیک وہی سلوک کیا جو جاوید ہاشمی کے ساتھ ہوا تھا۔
میرے سامنے تین تصویریں پڑی ہیں ایک اٹلی کا جج ہے جس نے اطالوی وزیراعظم برلسکونی کو طلب کر لیا تھا،دوسری تصویر جسٹس افتخار چوہدری کی ہے،تیسری تصویر جسٹس وجیہ الدین کی ہے ،آپ ان تینوں صاحبان کا پاگل پن ملاحضہ کیجیے ان تینوں نے ایمانداری پر پاگل پن کی حد تک عمل کیا۔ان تینوں نے وقت کے حکمرانوں کوللکارا،ان تینوں نے سپائرل آف سائلنس کی تھیوری کو چیلنج کر دیا۔ان میں سے دو پاگل پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں،اگر آپ بھی چاہتے ہیں کہ اب مایوسی،بے روز گاری،دہشت گردی،بھوک ،افلاس، بدامنی، فرسٹریشن،کرپشن،بے ایمانی،بد تہذیبی کی فضاء کا خاتمہ ہوجائے تو آج ہی اپنے خاندان،دفاتر،کالج،یونیورسٹیز میں اسی طرح کے پاگل پن کا مظاہر کیجیے،یہ مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں۔۔۔!