تحریر : محمد آصف اقبال آزادی کے بعد سے اب تک ایسے شمار ایشوز اٹھائے گئے ہیں جن کی زد میں خاص طور پر مسلمانوں کے عقائد ،نظریات،معاشرت اور پرسنل لاآتے ہیں۔وہیں ان تمام مواقع پر یہ سوال بھی بارہا اٹھتا رہا ہے کہ کیا یہ ایشوز خصوصاً مسلمانوں کو سامنے رکھتے ہوئے ،انہیں الجھانے کی غرض سے اٹھائے جاتے ہیں ؟یا درحقیقت اِن ایشوز کو اٹھانے والوں کے عقیدہ ،ایمان اور آستھاکا اس سے کوئی تعلق ہے؟اس کا کوئی واضح جواب تو اب تک حاصل نہیں ہو سکا ہے۔اس کے باوجود مسلمانوں کے سوچنے سمجھنے والے طبقہ کا خیال یہی ہے کہ ان ایشوز کو منظم و منصوبہ بند انداز میں چند مخصوص مقاصد کے پیش نظر اٹھایا گیا ہے اور اس میں نمایاں مقصد اب تک جو سب سے زیادہ ابھر کر سامنے آیا ہے وہ سیاسی سطح پر مخصوص فکر و نظریہ کا فروغ اور حصو ل اقتدار ہے۔گزشتہ دنوں مئی 2017میں پورے ملک میں تین طلاق کے ذریعہ مسلم پرسنل لا ایک بڑا ایشوبنا رہا ہے۔
سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بنچ نے مسلمانوں میں رائج تین طلاق،تعداد ازدواج اور نکاح حلالہ کی آئینی و قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر 9دن تک سماعت جاری رکھی تھی۔اس دوریہ تمام ایشوز اخبارات کی زینت بنے رہے ۔دوسری جانب ٹی وی چینلوں پر بھی مباحث جاری رہے۔وہیں مسلمانوں کے اندر مجموعی طور پر ڈر اور خوف کا ماحول برقرار رہاکہ کہیں سماعت کے اختتام پر مسلم پرنسل لا جس پر اب تک آزادانہ پریکٹس جاری ہے اس میں کسی قسم کی ترمیم کا کوئی ایسا فیصلہ سامنے نہ آجائے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی شناخت اور ان کی معاشرت کو دشواری لاحق ہو۔آخر میں ہوا یہ کہ سماعت کے بعد سپریم کورٹ آف انڈیا نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا۔اب یہ فیصلہ کسی وقت بھی آسکتا ہے اور کسی شکل میں آنے کے امکانات ہیں۔
مختلف ایشو ز جو عقائد سے راست تعلق رکھتے ہیں اُنہیں میں مدراس ہائی کورٹ کا یہ حکم کہ ریاست تمل ناڈو کے تمام اسکول اور کالج سمیت تمام تعلیمی اداروں میں بھارت کا قومی ترانہ “وندے ماترم”گایا جائے جبکہ سرکاری اور نجی دفاتر میں مہینے میں ایک مرتبہ گایا جائے،کچھ کم اہم نہیں ہے۔
جسٹس ایم وی مرلی دھرن نے حکم دیا کہ قومی ترانے کا انگریزی اور تمل زبان میں ترجمہ کر کے اُن لوگوں کے ساتھ شیئر کیا جانا چاہیے جنہیں سنسکرت اور بنگالی میں گانے میں دشواری پیش آتی ہے۔ جسٹس ایم وی مرلی دھرن نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ تعلیمی ادارے ہفتے بھر میں قومی ترانے کے لیے پیر یا جمعہ کا دن طے کرسکتے ہیں۔ جسٹس ایم وی مرلی دھرن نے کہا کہ اگر کسی شخص یا ادارے کو قومی ترانہ بجانے میں مشکل کا سامنا ہے تو اسے ایسا کرنے کیلئے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت نے یہ فیصلہ تمل ناڈو ریکروٹمنٹ بورڈ کے ایک کیس میں سنایا ہے۔ ہوا یہ تھا کہ اس کیس کو دائر کرنے والے کے ویرامانی نامی شخص نے جب بی ٹی اسسٹنٹ کیلئے امتحان دیا تو وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوںنے لکھا تھا کہ بھارت کا قومی ترانہ بنگالی زبان میں ہے۔
عدالت نے جب ایڈووکیٹ جنرل اور دیگر ارکان کو بلاکر پوچھا کہ وندے ماترم کس زبان میں لکھا گیا تھا تو ایڈووکیٹ جنرل متھوکمارسوامی اور دیگر نے ویرامانی کو ہی درست قرار دیا۔ جس کے بعد عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ بنکم چندر چٹوپادھیائے نے وندے ماترم کو سب سے پہلے بنگالی زبان میں ہی لکھا تھا جس کا بعد میں سنسکرت میں ترجمہ کیا گیا ۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ ویرامانی کو متعلقہ نوکری میں بھرتی کیا جائے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اس ملک کے نوجوان اس کا مستقبل ہیں اور عدالت امید کرتی ہے کہ اس کے حکم کو مثبت انداز میں لیا جائے گا۔ وکیل انان ٹھاکرشنا کے مطابق تمل ناڈو کی حکومت اس عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کی پابند ہے اور اگر وہ اس میں ناکام ہوتی ہے تو یہ توہین عدالت ہو گی۔ ایجوکیشن منسٹر پرنس گجندرا بابو نے کہا ہے کہ یہ عدالت کا کام نہیں کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ اسکولوں کو کیسے چلانا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم عدالت کے حکم کو بجا لانے کیلئے مجبور ہیں کیونکہ ہم عدالت کا احترام کرتے ہیں۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر کوئی شخص قومی ترانہ گاتا ہے تو یہ اس کی حب الوطنی کا ثبوت نہیں ہے۔دیکھا جائے تو عدالت کے فیصلہ کا پس منظر یعنی جس کیس کی بنا پر عدالت نے یہ فیصلہ کیا ہے وہ کوئی پہلے سے طے شدہ نہیں ہے۔اس کے باوجود فیصلہ آنے کے بعد ریاست تمل ناڈو کے مسلمان اور ان کے تعلیمی و دیگر ادارے ایک عجیب کشمکش میں مبتلا ہیں۔
فیصلہ کے پس منظر میں سوال کرنے والا کوئی شخص بھی یہ سوال کر سکتا ہے کہ مسلمانوں کو اس کے پڑھنے میں کیا دشواری لاحق ہے؟سوال کا جواب دیا جائے اس سے قبل بہتر ہوگا کہ وندے ماترم کا ترجمہ دیکھ لیا جائے۔ترجمہ:”تیری عبادت کرتا ہوں اے میرے اچھے پانی، اچھے پھل، بھینی بھینی خشک جنوبی ہواوں اور شاداب کھیتوں والی میری ماں ، حسین چاندنی سے روشن رات والی، شگفتہ پھولوں والی، گنجان درختوں والی ، میٹھی ہنسی، میٹھی زبان والی، خوشی دینے والی، برکت دینے والی ماں، میں تیری عبادت کرتا ہوں اے میری ماں ۔ تیس کروڑ لوگوں کی پرجوش آوازیں، ساٹھ کروڑ بازو میں سمیٹنے والی تلواریں ، کیا اتنی طاقت کے بعد بھی تو کمزور ہے اے میری ماں ۔ تو ہی میرے بازو کی قوت ہے، میں تیرے قدم چومتا ہوں اے میری ماں ۔ تو ہی میرا علم ہے، تو ہی میرا مذہب ہے، تو ہی میرا باطن ہے، تو ہی میرا مقصد ہے ، تو ہی جسم کی روح ہے، تو ہی بازو کی طاقت ہے، تو ہی دلوں کی حقیقت ہے ، تیری ہی محبوب مورتی مندر میں ہے ، تو ہی درگا، دس مسلح ہاتھوں والی، تو ہی کملاہے، تو ہی کنول کے پھولوں کی بہار ہے ، تو ہی پانی ہے، تو ہی علم دینے والی ہے ، میں تیرا غلام ہوں، غلام کا غلام ہوں ، غلام کے غلام کا غلام ہوں ، اچھے پھل والی میری ماں۔ میں تیرا بندہ ہوں، لہلہاتے کھیتوں والی مقدس موہنی، آراستہ پیراستہ، بڑی قدرت والی قائم و دائم ماں ، میں تیرا بندہ ہوں ۔اے میری ماں میں تیرا غلام ہوں” (یہ اردو ترجمہ، آل انڈیا دینی، تعلیمی کونسل لکھنو کا شائع شدہ ہے)۔
آپ جانتے ہیں کہ وندے ماترم بنگلہ زبان کے مشہور ناول نگار بنکِم چندر چٹرجی کی 1882میں لکھی ناول’آنندمٹھ’میں شامل ہے۔وندے ماترم ناول کا ایک حصہ ہے۔لیکن چونکہ چڑجی مشہور شاعر بھی تھے لہذا اسے پہلی مرتبہ انہوں نے 7نومبر1875میں لکھا تھا۔ لیکن باضابطہ طور پر روندرناتھ ٹیگور نے 1896میں کانگریس کی منعقدہ میٹنگ ،کلکتہ میںاسے پہلی مرتبہ گایا تھا۔یہ درست ہے کہ کانگریس اجلاس میں اس نظم کو سب سے پہلے رابندر ناتھ ٹیگور نے ہی آواز دی تھی اور اس کا دھن بھی بنایا تھا مگر جب اس نظم کو قومیت کی علامت بنا کر پیش کیا جانے لگا تو انہوں نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے 1937 میں سبھاش چندر بوس کو ایک خط بھی لکھا کہ”وندے ماترم کا بنیادی عقیدہ دیوی درگا کی پرستش ہے اور یہ اتنا واضح ہے کہ اس پر کسی قسم کی بحث کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
بیشک بنکم نے درگا کو متحدہ بنگال کی ایک علامت کے طور پر پیش کیا ہے مگر کسی مسلم سے یہ توقع نہیں کی جانی چاہیے کہ وہ حب الوطنی کے نام پر دس ہاتھوں والی درگا کی عبادت کرے”۔ (بحوالہ: رابندر ناتھ کے منتخبہ خطوط’ مطبوعہ کیمبریج یونیورسٹی)۔بنیادی طور پر یہ ناول اسلام دشمنی پر مبنی ہے ، اور اس میں انگریزوں کو اپنا مسیحا ثابت کیا گیا ہے ۔ ناول میں مختلف پاٹ یہ گیت”درگا” کے سامنے گائے جاتے ہیں جو ہندو بھائیوں میں ماں کا مقام رکھتی ہے۔گیت میں بھارت کو”درگا ماں” ثابت کیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آزادی سے پہلے ہی یہ گیت متنازع بن گیا تھا۔ جواہر لعل نہرو، سبھاش چندربوس اور ڈاکٹر لوہیا جیسے عظیم رہنماوں نے اس گیت کی مخالفت کی تھی۔ اور جب بھارت کے قومی گیت کے انتخاب کی بات آئی تو ایک گروپ کی کوشش کے باوجود اس گیت کو قومی گیت میں شامل نہیں کیا گیا۔ بلکہ بنگلہ شاعر روندرناتھ ٹیگور کے گیت ‘جن گن من’کو بھارت کا قومی گیت بنایا گیا ۔جس میں ملک کی تعریف کی گئی ہے اور کسی کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچائی گئی ہے۔
Mohammad Asif Iqbal
تحریر : محمد آصف اقبال maiqbaldelhi@gmail.com maiqbaldelhi.blogspot.com