تحریر : واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم ویسے تو آج کی دنیا میں نیکی اور خداترسی مارکیٹ میں ڈھونڈنے سے بھی نہی ملتی۔ انسان انسان کو جانوروں کی طرح مار رہا ہے۔ بھائ بھائ کا گلا کاٹ رہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ جنسی حملوں کے واقعات میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے۔ بھائ کے گناہوں کی سزا بھی ان کی معصوم بہنوں کی عزتیں لٹا کر پوری کی جاتی ہیں۔ گوشت کی جگہ گدھے اور کتوں کا گوشت، چوہوں کے قیمے سے بنے سموسے ، ڈٹرجینٹ کی جھاگ والا دودھ وغیرہ وغیرہ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی نہی ، بلکہ چلی گئ ہے۔ لوگوں کی فطرت میں غصہ، نفرت اور عدم برداشت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ایک سائیکل چور کو بھی چند لوگ مجمے کی صورت میں جان سے مار دیتے ہیں اور ان میں سے کسی کے بھی ہاتھ نہی کانپتے۔ بلکہ اس کی لاش پر بھی تشدد سے باز نہی آتے۔ مگر اس طرح کے معاشرے میں چند لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو خدا کا خوف رکھتے ہیں اور اس کے بندوں کی خدمت کو ہی خدا کی عبادت سمجھ لیتے ہیں۔ دنیا میں اس طرح کے لوگ بھی موجود ہیں۔ جنہوں نے اپنی ساری زندگی نسل انسانی کی خدمت کو اپنی زاتی زندگی کے عیش و عشرت پر ترجع دی اور لوگوں کے دلوں میں اپنا گھر بنا لیا۔ ویسے تو اور بہت سے فرشتے خدا نے زمین پر اپنے لوگوں کی خدمت کے لئے بیجھے مگر مجھے جن تین نا موں پر خدا کے فرشتے ہونے کا زرا بھر بھی شک نہی ہے وہ مدر ٹریسہ ، عبدلستار ایدھی اور ڈاکٹر روتھ فاؤ ہیں۔ میرا خیال ہے کہ گزشتہ صدیوں بلکہ ملینئمز میں بھی مجھے خدا تعالی کے نبیوں اور پیغمبروں کو چھوڑ کر ان تین ناموں کے فرشتوں کی کوئ مثال ملتی ہو۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ اب اس جہان فانی سے کوچ کر گئ ہیں مگر جو کچھ انہوں نے اپنی زندگی میں کمایا ہے وہ سرمایا ان کے اگلے جہان میں کام آئے گا۔ کیونکہ یہ سرمایہ ان کے بہترین اعمال ہیں جو ان کے ساتھ ہیں اور ان کے ساتھ ہی رہیں گے۔
روتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ 9 سپتمبر 1929 کو جرمنی کے شہر لیپزگ میں پیدا ہوئیں، چار بہنوں اور ایک بھائ کے اس خاندان نے دوسری جنگ عظیم میں اپنا بہت کچھ کھو دیا۔ جرمنی کی تقسیم کے بعد ان کے خاندان نے مغربی جرمنی میں ہجرت کر لی 1950 میں ڈاکٹر روتھ فاؤ نے جب وہ مائینز یونی ورسٹی میں میڈ یسن کی تعلیم حاصل کر رہی تھی تو اسی دوران انہوں نے اپنی زندگی خدا کے لوگوں کی خدمت کے لئے وقف کرنے کا فیصلہ کیا اور کیتھولک چرچ میں نن بن گئیں اور تنظیم ڈاٹر آف دی ہاٹ آف میری(مقدس مریم کی بیٹی) میں شرکت اختیار کر لی۔ اس تنظیم کا مقصد انسانیت کی خدمت اور انسان سے مزہب، رنگ اور نسل کی تفریق کے بغیر انسان سے محبت کرنا ہے۔ 1960 میں اس تنظیم نے ڈاکٹر روتھ فاؤ کو جنوبی انڈیا میں خدمت کے مشن پر بھیجا۔ ڈاکٹر فاؤ بزریعہ کراچی ہندوستان جانے کے لئے روانہ ہوئ مگر ویزہ وقت پر نہ ملنے کی وجہ سے ان کو کراچی میں چند دن رکنا پڑا اس دوران ڈاکٹر روتھ کو معلوم ہوا کہ کراچی میں میکلوڈ روڈ پر ایک ایسی بستی موجود ہے جو موت کی بستی کہلاتی ہے جہاں سورج تو نکلتا ہے مگر اس بستی کے مکین زندہ ہونے کے باوجود بھی قبر کے اندھیروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ڈاکٹر روتھ نے اس بستی کا دورہ کیا اور اس بستی کے مکینوں کی حالت زار دیکھ کر افسردہ ہو گئیں۔ اس بستی میں جزام کے مریض رہتے تھے۔ جن کو ہم عام زبان میں کوڑھ بھی کہتے ہیں۔
اس مرض میں انسان کے جسم کے کسی حصے پر ایک سفید نشان پڑ جاتا ہے اور پھر اس نشان والی جگہ سُن یعنی درد سے عاری ہو جاتی ہے اور پھر وہاں سے گوشت گلنا شروع ہو جاتا ہے جو دھیرے دھیرے سارے جسم کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کرتا ہے۔ ان مریضوں کو ان کے اپنے گھر والے موت سے پہلے ہی مردہ سمجھ کر فراموش کر چکے تھے۔ ان مریضوں کا یہ حال تھا کہ یہ اپنے آپ کو ان کیڑوں مکوڑوں سے بھی نہی بچا سکتے تھے جو ان کا گوشت ان کی آنکھوں کے سامنے نوچ رہے ہوتے تھے۔ عام لوگ اس بستی کے نزدیک سے بھی گزرتے ہوئے ڈرتے تھے۔ یہ بستی کراچی کے سب سے بڑے ریلوے اسٹیشن سٹی اسٹیشن کے نزدیک تھی اور کراچی کی سب سے مصروف ترین شاہرہ میکلوڈ روڈ جسے اب آئ آئ چندرگیر روڈ کہتے ہیں اس کے پیچھے واقع تھی۔ ڈاکٹر فاؤ ان کے لئے خدا تعالی کی جانب سے بھیجا جانے والا فرشتہ ثابت ہوئ۔ یہ وہ وقت تھا جب انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ ہی وہ مقصد ہے جس کے لئے وہ پاکستان آئ تھیں۔ پھر انہوں نے بہت کم وسائیل میں اپنا کام شروع کیا کچی جھونپڑی سے انہوں نے اپنا کام شروع کیا اور آج پاکستان ان کی خدمات کی بدولت کوڑھ جیسی لعنت سے آزاد ہے۔ 1996 میں جب دنیا کے بہت سے ممالک اس موضی مرض سے جوج رہے تھے تو ورلڈ ہلتھ آرگنازئیشن نے پاکستان کو سب سے پہلے ان ممالک میں شمار کیا جن میں یہ بیماری دم توڑ چکی تھی۔
یہ ڈاکٹر روتھ کا ہمارے پاکستان کے لئے ایک عظیم تحفہ تھا۔ گو کہ ان کا پاکستان سے سوائے انسانیت کے اور کوئ تعلق نہ تھا مگر ان کو پاکستان سے پیار ہو گیا تھا۔ وہ 1979 میں صحت کی وزارت میں حکومت کی مشیر بھی رہی ہیں۔ جبکہ وہ اس وقت پاکستان کی شہریت بھی نہی رکھتی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ چونکہ اس وقت ان کی زندگی کو خطرہ تھا تو حکومت پاکستان نے ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے ان کو یہ اعزازی عہدہ دیا تھا۔ انہوں نے بہت سے ہسپتال بنائے جو کہ نہ صرف جزام بلکہ ٹی بی اور دیگر امراض کے لئے بھی تھے۔ ڈاکٹر روتھ نے کچھ کتابیں بھی لکھی ۔ اس کے علاوہ ان کے بہت سے پاکستانی اور بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا ۔جن میں آرڈر آف میرٹ (جرمنی) ستارئے قائداعظم ، ہلال امتیاز، ہلال پاکستان، رامون ماگسایا ایوارڈ وغیرہ شامل ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ اب ہمیں بہت طویل انتظار کرنا ہوگا شاید صدیوں کہ جب کوئ عبدل ستار ایدھی، مدر ٹریسہ اور ڈاکٹر روتھ جیسے لوگ پیدا ہوں گے اور اگر نہی تو قیامت کا یقین تو ہے ہی۔