چیر مین پیپلز ادبی فورم یو اے ای پنجاب کے پہلے سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کے سکھہ شاہی راج کے بارے میں مشہور تھا کہ کسی بھی ملزم کی شناخت اور گرفتاری کی خاطر اس کی گردن میں رسہ اس کی گردن کا سائز دیکھ کر ڈالا جاتا تھا ۔سوال یہ نہیں ہوتا تھا کہ ایسا شخص ملزم ہے یا کہ نہیں ہے بلکہ سوال یہ ہوتا تھا کہ رسہ کس کی گردن میں فٹ ہو سکتا ہے لہذا رسہ جس کی گردن میں فٹ ہو جا تاتھا وہی ملزم گردانا جاتا تھا۔ زمانہ بدل گیا ہے لیکن وہ طریقہ واردات نہیں بدلا اب بھی ملزموں کا انتخاب اپنی ذاتی انا اور ضد کی بنا پرکیا جاتاہے اور انھیں ذاتی انا کی تسکین کی خاطر سولی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ذولفقار علی بھٹو کا مقدمہ اس کی سب سے بین مثال ہے جس میں جنرل ضیا الحق نے اپنا اقتدار بچانے کی خا طر بے گناہ ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی کے پھندے پر چڑھا دیا گیا۔بھٹو کی موت سے ہی جنر ل ضیا الحق کا اقتدار بچ سکتا تھا لہذا اس نے اقتدار بچانے کی خاطر موت کا یہ کھیل کھیلنے کا فیصلہ کر لیا اور یوں ہوسِ اقتدار کی خاطر مسلم امہ کے ہر دلعزیز راہنما کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔بالکل ایسی ہی کیفیت میاں محمد نواز شریف کے موجودہ دورِ حکومت میں دیکھی جا رہی ہے۔جنرل پرویز مشرف کا آرٹیکل چھہ کے تحت ٹرائل آج کل ہر جانب موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔
سوال یہ نہیں ہے کہ یہ ٹرائل کیوں ہو رہا ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ یہ ٹرائل ١٢ اکتوبر ١٩٩٩ سے کیوں نہیں ہو رہا؟۔کیا ایک وزیرِ اعظم اور پارلیمنٹ کو بر طرف کرنا کسی چیف جسٹس کو بر طرف کرنے سے بڑ ا فعل ہے؟ کوئی عہدہ چاہے جتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو جائے وہ پارلیمنٹ کے تقدس سے بڑا نہیں ہوتا اور وزیرِ اعظم پاکستان اس تقدس کی علامت ہوتا ہے کیونکہ ہائوس کی اکثریت اسے منتحب کرتی ہے لہذا ضرورت اس بات کی تھی کہ چیف جسٹس کے عہدے کے تقدس کی بجائے پارلیمنٹ کے تقدس کو اہمیت دی جاتی اور جنرل پرویز مشرف پر پارلیمنٹ کو اپنے بو ٹو ںتلے رھوندنے کا مقدمہ چلا یا جاتا لیکن ایسا کیا نہیں گیاکیونکہ ایسا کرنے سے بہت سے ایسے ہاتھ قانون کی گرفت میں آ سکتے تھے جو میاں برادران نہیں چاہتے تھے کہ قانون کے شکنجے میں جکڑے جائیں لہذا اس کا آسان طریقہ یہی تھا کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف ایسا مقدمہ چلا یا جاتا جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹو ٹے۔موجودہ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے اکثریتی ارکان ١٢ اکتوبر ١٩٩٩ کے شب خون کے دست و بازو تھے اور انھوں نے جنرل پرویز مشرف کا کھل کر ساتھ دیا تھا ۔اس وقت تو وہ جنرل پرویز مشرف کو سو بار وردی میں صدر منتخب کرنے کی بڑھکیں مارا کر تے تھے اور اس کی دانش اور فہم و فراست کے گیت گاتے نہیں تھکتے تھے۔جنرل پرویز مشرف ان کے لئے سونے کی ایک ایسی چڑیا تھی جس سے ان کے مفادات کی تکمیل ہوتی تھی۔ان ڈھنڈورچی نما لوگوں نے جنرل پرویز مشرف کو ساتویں آسمان پر بٹھا رکھا تھا۔وہ دن رات اس کی بلائیں لیتے تھے اور اس کی عظمت کے گن گاتے تھے۔
Pervez Musharraf
یہ اس وجہ سے نہیں تھا کہ جنرل پرویز مشرف میں وہ ساری خوبیاں موجود تھیں جن کا وہ ڈھنڈورا پیٹتے تھے بلکہ یہ اس لئے کہ ان کے مفادات کی تکمیل جنرل پرویز مشرف کی ذات سے ممکن تھی۔ میاں برادران کے خلاف ان کے توہین آمیز بیانات اور الزامات تاریخ کا حصہ ہیں لیکن جنرل پرویز مشرف کے زوال کے بعد ایسے تمام ڈھنڈورچیوں نے ملک کے وسیع تر مفاد میں میاں برادران کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور میاں بردران نے ملک کے وسیع تر مفاد میں اپنی جما عت مسلم لیگ (ن) کے دروازے ان پر چوپٹ کھول دئے۔ آج جنرل پرویز مشرف کے اکثر اہم ساتھی مسلم لیگ (ن) میں ممبرانِ قومی اسمبلی بنے بیٹھے ہیں اور میاں بردران کی تعریف وتوصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں ویسے ہی جیسے وہ جنرل پرویز مشرف کے ملایا کرتے تھے ۔وہ خوشامد جو جنرل پرویز مشرف کی ذات کا حصہ ہوا کرتی تھی اب میاں برادران کی ذات سے منسوب ہے کیونہ ا ب اقتدار کا مرکز بدل گیاتھا اور مرکز بدلنے سے انسان کا بدلنا بھی ضروری ہوتا ہے نہیں تو لوگ طعنے دے سکتے ہیں کہ یہ بہت رجعت پسند لوگ ہیں جو بدلنے سے ڈرتے ہیں۔تغیرنا آشنا نہ ہونے کے الزام سے بچنے کی خاطر یہ مرغِ بادِ نما لوگ بدل گئے اور فورا میاں برادران کے درِ دولت پر سجدہ ریز ہو گئے۔
میاں برداران کو بھی یہ علم تھا کہ ان وڈیروں ،جاگیر داروں، سرمایہ داروں اور رسہ گیروں کے بغیر انتخا بات میں کامیابی کا امکان بہت کم ہے لہذان کے لئے ایسے گندے انڈوں کو اپنی جماعت میں قبول کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا۔ جنرل پرویز مشرف کو ٹرائل ١٢ اکتوبر سے شروع کرنے سے یہ قباحت بھی پیدا ہو سکتی ہے کہ میاں محمد نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) کے بہت سے اکثریتی ارکان ملزموں کے کٹہرے میں کھڑے ہوجائیں اور میاں محمد نواز شریف وزارتِ ِ عظمی سے محروم ہو جائیں ۔ وزارتِ عطمی کوئی معمولی چیز تھوڑی ہے ۔ وزارتِ عظمی کیلئے تو لوگ اپنا لہو بھی دینے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات اپنے انتہائی قریبی،مخلص اور قابلِ احترام ساتھیوں کا خون کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے لہذا یہ کیسے ممکن تھا کہ جنرل پرویز مشرف کے ٹرائل کی خاطر میاں محمد نواز شریف اپنی وزارتِ عظمی کی قربانی دے ڈالتے جو پہلے ہی بڑے جتنوں ،ارمانوں اور دھاندلی کے بے پناہ الزامات کے بعد ان کے ہاتھ آئی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آئینِ پاکستان کسی بھی مہم جوئی کی اجازت نہیں دیتا اور جو کوئی ایسا کرتا ہے اسے اس کے ساتھیوں اور معاون کاروں کے ساتھ غداری کے زمرے میں کھڑا کرتا ہے۔٢ ا اکتوبر ١٩٩٩ کے کردارو ں میں ایک اہم کردار سپریم کورٹ کے ججز کا بھی تھا جھنوں نے جنرل پرویز مشرف کو آئینی تحفظ بھی فراہم کیا تھا اور اسے آئین میں ترمیم کا اختیار بھی تفویض کیا تھا۔ افتحار محمد چوہدری بھی اسی بنچ کا حصہ تھے جھنوں نے شب خون کوجائز قرار دیا تھا۔اس پر مستزاد یہ کہ افتخار محمد چوہدری پی سی او کے تحت چیف جسٹس کے عہدے پر جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں ہی نامزد ہوئے تھے اور ان کا حلف بھی جنرل پرویز مشرف نے لیاتھا۔اسی لئے کچھ لوگ انھیں پی سی او جج کہنے سے باز نہیں آتے ۔یہ تو سات مارچ ٢٠٠٧ کی بات ہے کہ ان کے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ اختلافات پیدا ہوئے اور جنرل پرویز مشرف نے انھیں چیف جسٹس کے عہدے سے فارغ کر دیا۔اس بے دخلی کے خلاف وکلا تحریک چلی اور افتحار محمد چوہدری اپنے عہدے پر بحال ہوگئے لیکن جب جنرل پرویز مشرف کا صدارتی انتخاب کی اہلیت کا مقدمہ افتحا ر محمد چوہدری کی عدالت میں پیش ہوا تو خدشہ پیدا ہوا کہ افتحار محمد چوہدری جنرل پرویز مشرف کو صدارت کے انتخاب سے نا اہل قرار دے دیں گئے لہذا ٣ نومبر ٢٠٠٧ کو جنرل پرویز مشرف نے ایمرجنسی کانفاذ کر کے افتحار محمد چوہدری کو چیف جسٹس کے عہدے سے فارغ کر کے عبدالحمید ڈوگر کو نیا چیف جسٹس نامزد کر دیا۔اب اسی ٣ نومبر ٢٠٠٧ کا مقدمہ سپریم کورٹ کے سامنے ہے
جس میں جنرل پرویز مشرف کو غداری کا مجرم ثا بت کرنے کیلئے تگ و دو ہو رہی ہے۔کہتے ہیں کہ جب ایک بار آزادی کا بھوت سر پر سوار ہو جائے تو پھر جائز و جانائز کی تمیز بھی کسی حد تک مٹ جاتی ہے ۔یورپ میں انسانی آزادیوں کی ہوا چلی تو اس ہوا میں عورتوں نے بھی اپنی آزادی کا نعرہ بلند کر دیا۔عورت آزاد کیا ہونے تھی البتہ ننگی ضرور ہو گئی اور اب اگر وہ چاہے بھی تو وہ اس ننگے پن سے باہر نہیں آسکتی کیونکہ یہ ننگا پن اس کی ذات کے ساتھ چپک گیا ہے۔یہ اپنے ننگے پن سے ایک ہی صورت میں چھٹکارا حاصل کر سکتی ہے کہ یورپ میں نیا انقلاب آئے جس میں عورت کی حرمت،اس کی حیا اور اس کئے تقدس کا نعرہ شامل ہو۔یورپ کی موجودہ فضا میں عورت کا ننگا پن یوں ہی برقرار رہیگا اور دل پھینک نوجوان اس سے محظوظ ہوتے ر ہیںگئے جبکہ اہلِ ایمان،اہلِ صفا،اہلِ حق اور اہلِ نظر اس پر خون کے آنسو بہاتے رہیں گئے۔۔