مہاتیر کا اسلامی سمٹ کا دفاع، اسلام کی موجودہ حالت پر افسوس

Mahathir Mohammad

Mahathir Mohammad

کوآلا لمپور (اصل میڈیا ڈیسک) ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے کوآلا لمپور میں مسلم ممالک کے رہنماؤں کی سمٹ کے انعقاد کا دفاع کرتے ہوئے اسلام کی موجودہ حالت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ سعودی عرب اس سمٹ کے انعقاد پر ناخوش اور پاکستان غیر حاضر تھا۔

مہاتیر محمد، جو ملائیشیا کے سربراہ حکومت کے طور پر اس سربراہی اجلاس کے میزبان ہیں، نے کہا کہ مسلمان ممالک کی یہ سمٹ منعقد ہونا ہی چاہیے تھی۔ یوں ان کا یہ موقف اسی اجلاس کے بارے میں سعودی عرب کی رائے کے بالکل برعکس ہے، جس نے نہ صرف کوآلا لمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے ہوتے ہوئے، جو ایک زیادہ بڑا پلیٹ فارم ہے، یہ اجلاس نہیں ہونا چاہیے تھا۔

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق اس وقت مسلم دنیا میں پائی جانے والی تقسیم اس طرح بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ اسلامی تعاون کی تنظیم او آئی سی کے رکن ممالک کی تعداد 57 ہے اور اس سمٹ کے لیے ان تمام ستاون ممالک کو دعوت دی گئی تھی۔ لیکن ان میں سے صرف 20 کے قریب ممالک کے رہنما ہی کوآلا لمپور گئے یا انہوں نے اپنے نمائندے وہاں بھیجے۔

ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ سعودی عرب نے اگر اس سمٹ میں شرکت سے انکار کر دیا تھا تو سعودی عرب کے قریبی اتحادی ملک پاکستان نے بھی تقریباﹰ آخری وقت پر اس اجلاس میں اپنی شرکت سے معذرت کر لی۔ اس پر میزبان مہاتیر محمد کو شرکت نہ کرنے والے ممالک کے ساتھ تعلقات کو ممکنہ طور پر بددلی کا شکار ہو جانے سے بچانے کی کوششیں بھی کرنا پڑیں۔

وزیر اعظم مہاتیر محمد کے بقول اس سربراہی اجلاس کے انعقاد کا مقصد یہ تھا کہ یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ آج اسلام، مسلمان اور ان کے ممالک ان ‘بحرانوں، لاچاری اور بےقدری کا شکار کیوں ہیں جو کہ اس عظیم مذہب (اسلام) سے مطابقت نہیں رکھتے‘۔

اس سمٹ کے کسی باقاعدہ ایجنڈے کا اعلان نہیں کیا گیا تھا لیکن عام توقع یہی تھی کہ اجلاس میں شریک رہنما ان سیاسی جغرافیائی مسائل، بحرانوں اور تنازعات پر تبادلہ خیال کریں گے، جن کا دنیا کے مختلف خطوں میں مسلمانوں کو سامنا ہے۔

ایسے بحرانوں اور تنازعات میں مشرق وسطیٰ اور کشمیر جیسے انتہائی دیرینہ تنازعات سے لے کر شام اور یمن کی جنگیں، میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی المناک صورت حال اور چینی صوبے سنکیانگ میں ایغور مسلم اقلیت کے ساتھ مبینہ زیادتیوں تک سبھی کچھ شامل ہو سکتا تھا۔ مگر نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق یہ بات بھی واضح نہیں کہ اگر شرکاء میں ان میں سے کچھ یا سارے ہی معاملات پر کوئی مکمل یا جزوی اتفاق رائے ہو سکتا ہے، تو وہ کتنا مؤثر اور کس حد تک قابل عمل ہو گا۔

ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے اس سمٹ کی میزبانی کرتے ہوئے جمعرات انیس دسمبر کے روز کہا کہ اس سمٹ کو اسلام سے متعلق ان تصورات کا تدارک کرنا چاہیے، جو اسلاموفوبیا جیسے جذبات اور اسلامی تہذیب کے زوال کی وجہ بنتے ہیں اور ساتھ ہی اس طرف بھی دھیان دینا چاہیے کہ مسلم اقوام کو اس وقت حکومت سازی میں اصلاحات کی بھی ضرورت ہے۔

اس اسلامی سمٹ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، جب حاضرین میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن، ایرانی صدر حسن روحانی اور قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی جیسے رہنما بھی بیٹھے تھے، مہاتیر محمد نے شرکاء کو خوش آمدید کہا اور زور دیا، ”ہم یہاں نہ تو کسی کے ساتھ کوئی امتیازی رویہ اختیار کر رہے ہیں اور نہ ہی کسی کو الگ تھلگ کرنے کی کوئی کوشش۔‘‘

ملائیشیا کے وزیر اعظم نے کہا، ”ہم ایک چھوٹے سے آغاز کی کوشش میں ہیں۔ اور اگر اس اجلاس میں سامنے آنے والے خیالات،تجاویز اور مجوزہ حل قابل قبول اور قابل عمل ہوئے، تو پھر ہم مزید غور و فکر کے لیے انہیں زیادہ بڑے پلیٹ فارم پر بھی لے جائیں گے۔‘‘

اس سمٹ سے اپنے خطاب میں ترک صدر ایردوآن نے بھی تقریباﹰ ایسی ہی بات کی، ”اس اجلاس میں ہمارے پاس موقع ہو گا کہ ہم اسلاموفوبیا، دہشت گردی، تقسیم، علاقائی سطح پر داخلی لڑائیوں، فرقہ واریت اور نسلی تنازعات جیسے مسائل پر کھل کر بات چیت کر سکیں۔‘‘

مہاتیر محمد کی طرح ایردوآن بھی اسلامی تعاون کی تنظیم کے ماضی کے ریکارڈ سے اس وجہ سے دلبرداشتہ ہیں کہ یہ تنظیم، جو دنیا بھر کے مسلمانوں کی نمائندہ ہے اور جس کے صدر دفاتر سعودی عرب میں ہیں، داخلی اختلافات کا شکار بھی رہی ہے اور مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے میں ناکام بھی۔ صدر ایردوآن کے مطابق اسلامی دنیا کو جوڑنے والے پلیٹ فارمز کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان میں عملیت پسندی کا فقدان ہوتا ہے۔ ایردوآن نے اپنے خطاب میں او آئی سی کا نام لے کر ذکر نہ کیا۔

ترک صدر ایردوآن کے مطابق، ”اگر ہم آج تک فلسطین کے تنازعے میں کوئی پیش رفت نہیں دکھا سکے، اگر ہم اپنے وسائل کے لوٹ لیے جانے کو نہیں روک سکو، اگر ہم آج تک اپنے مسائل کے آگے بند نہیں باندھ سکے، تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم فرقہ واریت کے باعث مسلم دنیا میں تقسیم کا قلع قمع بھی نہیں کر سکے۔ وجہ یہی ہے۔‘‘

پاکستان نے، جو دنیا کی واحد مسلمان ایٹمی طاقت ہے، کوآلا لمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا اعلان محض چند روز قبل کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وزیر اعظم عمران خان اپنے طور پر اس بات سے بچنا چاہتے تھے کہ وہ فریقین میں سے کسی ایک کی طرف داری کرنے پر مجبور ہو جائیں۔

اس بارے میں پاکستانی وزیر اعظم کی مشیر فردوس عاشق اعوان نے اسلام آباد میں صحافیوں کو بتایا، ”پاکستان مسائل کے حل کا حصہ بننا چاہتا ہے، مسائل کا حصہ نہیں۔‘‘

کوآلا لمپور کی یہ اسلامی سمٹ ہفتہ اکیس دسمبر کو اپنے اختتام کو پہنچے گی۔