تحریر: سید انور محمود پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی جو قائد اعظم کے تو مخالف ہیں لیکن اپنے آپ کو ایک اصول پسند سیاستدان کہتے ہیں، غریبوں اور مظلوموں کی نام نہاد ہمدردی رکھنے والے اس سیاستدان نے دسمبر 2014 میں اسلام آبادکے دھرنے کے شرکا کو جو عام طور پر متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے خانہ بدوش کہہ کر پکارا تھا حالانکہ یہ انہی جیسے خانہ بدوشوں کےووٹوں کی بھیک حاصل کرکے پارلیمینٹ میں پہنچے ہیں۔محمود خان اچکزئی نواز شریف کے سیاسی حلیف ہیں، اس لیے سیاسی اور مالی فوائد بھی حاصل کررہے ہیں۔ نواز شریف حکومت میں محمود خان اچکزئی کی بیوی سمیت انکے خاندان کے دس افراد مختلف حکومتی عہدوں پرموجود ہیں ، خود وزیراعظم کے مشیر خاص اور ایک بھائی گورنر بلوچستان، باقی دوسرئے عہدوں پر۔محمود خان اچکزئی اپنے متنازع بیانات کےلیے مشہور ہیں، ان کے والدخان عبدالصمد اچکزئی نے 1973ء کے آئین کو تسلیم نہیں کیا تها اور اپنی پوری زندگی خان عبدالصمد اچکزئی یہ درس دیتے رہے کہ پختون قوم کی آزادی کے لئے آزاد پختونستان کا قیام ضروری ہے۔
ایک جلسہ عام میں جو 25جون 2012 کو کوئٹہ کے صادق پارک میں ہوا تھا، محمود خان اچکزئی نے اپنی طویل تقریر کے دوران کہا تھا کہ ’’بلوچوں کے ساتھ نہ کوئی لڑائی ہے، نہ جھگڑا، یہ بلوچوں کا علاقہ ہے جو چاہیں کریں، ہمیں کوئی سروکار نہیں ہے۔ہم پشتون برابری کی بنیاد پر اپنا حق مانگتے ہیں۔صوبے میں پشتونوں کو ان کا حق دیا جائے تو ہم یہاں رہیں گے۔ہمیں حقوق نہ دیئے گئے تو دوسروں کو بھی مزے نہیں لینے دیں گے۔وزیراعلیٰ پشتون نہیں تو گورنر پشتون ہونا چاہیے۔چترال سے بولان تک متحدہ قومی وحدت کی تشکیل تک 125سال پرانا صوبہ بحال کیا جائے۔ ہماری جدوجہد کا مقصد پاکستان کو توڑنا نہیں، ہم بلوچستان میں دوسرے درجے کے شہری بن کرنہیں رہ سکتے۔ بلوچ ہمیں مجبورنہ کریں کہ جرگہ بلا کر الگ صوبے کا اعلان کریں‘‘۔ ان کی اس تقریر نے بلوچ قوم پرستوں میں شدید ردعمل پیدا کیا ہے اور تمام قوم پرست پارٹیوں نے ان کے خلاف بیانات دیئے۔بلوچستان میں پشتون بلوچ سیاست میں ایک خاموش فائر بندی تھی، جو محمود خان اچکزئی کی اس تقریر کے بعد ٹوٹ گئی۔
قومی اسمبلی میں دس جون 2013 کو اس وقت کے صدر آصف زداری کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس پر بحث کے دوران، محمود خان اچکزئی نے اپنی تقریر میں یہ سوال اُٹھایا تھا کہ آخر کراچی سے اردو بولنے والوں کے علاوہ دیگر قومیتوں اور زبانیں بونے والے جیسے سندھی، پنجابی، بلوچ یا پٹھان، سندھ کی صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کے لیے کیوں منتخب نہیں ہوتے؟ اس حوالے سے انہوں نے لبنان کی بھی مثال دی جہاں آئین کی رو سے صدر عیسائی، وزیراعظم سنی جبکہ شیعہ کمیونٹی کا فرد اسپیکر بنتا ہے، یہ طریقہ کار وہاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو یقینی بنانے میں مدد دیتا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کراچی کو ’’دہشت گردوں کا شہر‘‘ قرار دے دیا۔ ایم کیو ایم کے سخت احتجاج کےبعد اسپیکر نے ’’دہشت گردوں کا شہر‘‘ کے الفاظ کو حدف کروادیا تھا۔ اپنی اسی تقریر کے دوران محمود خان اچکزئی نے فاٹا کی سات ایجنسیز پر مشتمل ایک علیحدہ پارلیمنٹ بنانے کی بھی تجویز پیش کی جس کا انتخاب فی فرد ایک ووٹ کے تحت کیا جائے اور ان کا ایک منتخب گورنر بھی ہو، لیکن ایم کیو ایم کے شور شرابے کی وجہ سے ان کی یہ تجویز زیر بحث نہ آسکی۔
Afghan Refugees
گذشتہ دنوں کافی عرصے بعد محمود خان اچکزئی کو ایک مرتبہ پھرمتنازع بیان دینے کا شوق جاگا تو انہوں نے افغان ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ خیبر پختونخوا افغانوں کا علاقہ ہے اور ”اگر افغان مہاجرین کو پاکستان کے دوسرے صوبوں میں ہراساں کیا جاتا ہے تو انہیں یہاں صوبہ خیبر پختونخوا میں آجانا چاہیے جہاں ان سے کوئی بھی مہاجر کارڈ طلب نہیں کرے گا کیونکہ یہ انہی کا ہے“۔ افغان مہاجرین وہاں جب تک چاہیں بلا خوف و خطر رہ سکتے ہیں۔ افغان اخبار کے مطابق ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغان مہاجرین کی جبری بے دخلی پر پاکستانی پشتونوں کو بھی تشویش ہے۔ بعد میں محمود خان اچکزئی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان اخبار نے ان کا بیان غلط انداز میں پیش کیا۔ میں نے یہ کہا تھا کہ تاریخ کے حوالے سے خیبر پختونخوا افغانستان کا حصہ رہا ہے، یہ نہیں کہا کہ خیبر پختونخوا افغانیوں کا ہے۔محمود خان اچکزئی نے اپنے بیان میں پختون قوم پرستی کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔
ان کے اس انٹرویو کےجواب میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخواپرویزخٹک نے کہا ہے کہ محمود خان اچکزئی کا بیان شرمناک ہے، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے،کیا محمود خان اچکزئی خیبرپختونخوا کے بغیر ایک مکمل پاکستان کا تصور کرسکتے ہیں؟ پرویزخٹک کاکہنا تھا کہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے آج تمام پاکستانیوں کا سر شرم سے جھکا دیا، خیبرپختونخوا کے عوام نے1947ء میں پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا نہ کہ افغانستان کے۔پرویز خٹک نے مزید کہا کہ محمود خان اچکزئی کے بیان کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے، خیبرپختونخوا کے عوام محمود خان اچکزئی کے بیان کو مسترد کرتے ہیں،پاکستان صرف پاکستانیوں کا ہے اور پاکستانی ہی اس ملک کے مستقل شہری ہیں۔
Khyber Pakhtunkhwa
ماضی کی سیاست میں قوم پرستی کا ایشو بہت زیادہ تھا مگر پھر قوم پرستوں نےجن میں غفار خان اور ولی خان بھی شامل ہیں خیبرپختونخوا کو پاکستان کا حصہ تسلیم کرلیا تھا۔ محمود خان اچکزئی کا افغان مہاجرین کے حوالے سے بیان پختون قوم پرستی کی بنیاد پر سیاست ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ محمود خان اچکزئی جانتے ہیں پختون قوم پرستی کے مردہ گھوڑے میں دوبار جان نہیں ڈالی جاسکتی ہے۔
پختون قوم پرستی کی تحریک دفن ہوچکی ہے جس میں زیادہ کردار پاکستان کے پختون قوم پرستوں کا رہا ہے۔محمود خان اچکزئی نے افغان مہاجرین کے بارے میں بیان سیاست کی غرض سے دیا ہے، انہوں نے پشتون قوم پرستی کی بنیاد پر سیاست کی ہے، بلوچستان میں پختون اور بلوچ سیاست اہم ہے۔ محمود خان اچکزئی افغانستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ سمجھنے اور وہاں مداخلت کے خلاف ہیں لیکن جب پاکستان کی ریاست کی بات آتی ہے تو وہ سرحدوں کو بھول جاتے ہیں، اس لیے محمود خان اچکزئی کے اس قسم کے وطن دشمن بیانات پاکستان کے عوام اور خاصکرپختونوں کو قبول نہیں ہیں۔ کوئی بھی محب وطن پاکستانی خیبرپختونخوا کے بغیر ایک مکمل پاکستان کا تصور نہیں کرسکتا۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ محمود خان اچکزئی کے اس متنازع بیان کا نوٹس لے اور خاصکر وزیراعظم نواز شریف کو اپنے سیاسی حلیف محمود خان اچکزئی جیسے غیر محب وطن کے ساتھ اپنے سیاسی اتحاد کے بارئے میں سوچنا چاہیے۔