تحریر : سید توقیر زیدی ایک زیرک سیاست دان کی طرف سے تا ریخی حقائق جھٹلانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ حکومتی حلیف پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ خیبر پی کے افغانوں کا ہے اور افغان مہاجرین وہاں جب تک چاہیں’ بلاخوف و خطر رہ سکتے ہیں۔ گزشتہ روز افغان اخبار افغانستان ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانوں کو دوسرے صوبوں میں پریشان کیا جائے تو وہ خیبر پی کے آکر آرام سے رہ سکتے ہیں’ وہاں کوئی ان سے افغان پناہ گزین کارڈ نہیں مانگے گا کیونکہ خیبر پی کے افغانوں ہی کا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغان مہاجرین کی جبری بے دخلی پر پاکستانی پشتونوں کو بھی تشویش ہے۔ پاک افغان سرحدی تنازعہ کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بہتر ہے پاکستان اور افغانستان آپس میں مل کر یہ مسئلہ حل کرلیں ورنہ چین اور امریکہ دو ہفتے کے اندر اندر یہ معاملہ طے کرلیں گے۔ انکے بقول افغان سرزمین دریائے آمو سے شروع ہوتی ہے۔ ڈیورنڈ لائن کے بعد افغانی لائن کے دوسری جانب اور ہم اِدھر رہ گئے۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ خیبر پی کے پرویز خٹک نے کہا ہے کہ محمود خان اچکزئی کے بیان کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ کیا وہ خیبر پی کے کے بغیر ایک مکمل پاکستان کا تصور کرسکتے ہیں۔ انکے بقول محمود خان اچکزئی نے تمام پاکستانیوں کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔
خیبر پی کے کے عوام نے 1947ء میں پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا تھا’ افغانستان کے حق میں نہیں۔ خیبر پی کے کے عوام اچکزئی کے بیان کو مسترد کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنماء اسدعمر نے بھی محمود خان اچکزئی کے بیان کو حیران کن قرار دیا اور کہا کہ اچکزئی کو افغانستان سے الفت ہے تو انہیں افغانستان مبارک ہو۔محمود خان اچکزئی ایک مدبر پارلیمنٹیرین کی حیثیت سے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور مختلف قومی ایشوز بالخصوص جمہوریت کی بقاء و تحفظ کے حوالے سے وہ ہمیشہ سسٹم کے ساتھ کھڑے اور سسٹم کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنیوالوں کو للکارتے نظر آتے ہیں۔
Khyber Pakhtunkhwa
اسی طرح وہ آئین کی پاسداری کے بھی متقاضی ہوتے ہیں اس لئے سوچ اور فلسفے میں اختلاف رائے کے باوجود وہ جمہوریت اور آئین و قانون کی حکمرانی کی علمبردار اپوزیشن جماعتوں کی صفوں میں بھی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں چنانچہ اس بزرگ شخصیت کی جانب سے جنہوں نے ملک اور سسٹم کی سلامتی و بقاء کیلئے ہمیشہ فکرمندی کا اظہار کیا ہو’ اپنی سوچ سے ہٹ کر ایسا بیان سامنے آنا جس سے پاکستان کے کمزور ہونے کا تاثر ملتا ہو’ انتہائی اچنبھے کی بات ہے۔ محمود خان اچکزئی نے خیبر پی کے کو افغانوں کا علاقہ قرار دے کر حقائق ہی نہیں جھٹلائے بلکہ پاکستان کے ایک حصے کو اس سے کاٹنے کی بھی نادانستگی میں سازش کی ہے جسے ملک کا کوئی بھی محب وطن شہری قبول و برداشت نہیں کر سکتا۔ اگرچہ محمود خان اچکزئی نے خود بھی اپنے انٹرویو کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان اخبار نے ان کا موقف توڑ موڑ کر پیش کیا ہے جبکہ انہوں نے صرف یہ کہا تھا کہ خیبر پی کے تاریخی طور پر افغانستان کا حصہ رہا ہے تاہم انکے انٹرویو کے دوسرے مندرجات سے بھی یہی عندیہ ملتا ہے کہ انہوں نے خیبر پی کے کو افغانستان کا حصہ قرار دیا ہے۔
تقسیم ہند سے قبل کی صورتحال یقیناً کچھ اور تھی تاہم خیبر پی کے کے علاقے اس وقت بھی افغانستان میں شامل نہیں تھے اور جس طرح قیام پاکستان کے بعد والی ¿ قلات نے قائداعظم سے ملاقات کرکے اپنی خودمختار ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا اسی طرح سرحدی علاقوں (حالیہ خیبر پی کے) کے عوام نے باقاعدہ ریفرنڈم کے ذریعے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس وقت سرخپوش رہنما خان عبدالغفار خان نے پاکستان سے الحاق کی مخالفت کی تاہم الحاق کے بعد وہ خود بھی پاکستان ہی میں مقیم رہے اور انکے بیٹے خان عبدالولی خان نے پاکستان ہی میں اپنی سیاست چمکائی۔ اگر محمود خان اچکزئی کے فلسفہ کو درست سمجھا جائے تو پھر تقسیم ہند سے قبل پاکستان کے علاقے ہندوستان کا ہی حصہ تھے’ کیا اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی باشندے درحقیقت ہندوستانی باشندے ہیں۔ اصل بات تو شناخت کی ہے اور تقسیم ہند کے بعد ہندوستان اور آزاد ریاستوں کے جو علاقے پاکستان کا حصہ بنے انکی شناخت اب پاکستان اور پاکستانیوں کے طور پر ہی ہوتی ہے اس لئے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ محمود خان اچکزئی کو گڑھے مردے اکھاڑ کر تاریخی حقائق جھٹلانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ہے جبکہ حکومتی حلیف ہونے کے ناطے ان کا بیان حکومت کیلئے بھی افغان مہاجرین کے حوالے سے اپنی پالیسی کے معاملہ پر پریشان کن ہو سکتا ہے۔
گزشتہ چار دہائیوں سے پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کو حکومت خود بھی دھکیل کر واپس افغانستان نہیں بھیجنا چاہتی اور پاکستان میں انکے قیام میں مزید چھ ماہ کی توسیع انکی باعزت واپسی کے انتظامات کرنے کیلئے ہی کی گئی ہے جبکہ ایک روز افغان مہاجرین کو اپنے ملک واپس جانا ہی ہے اس لئے حکومتی حلیف کی حیثیت سے محمود خان اچکزئی نے افغان مہاجرین کو خیبر پی کے کے باشندے قرار دے کر درحقیقت حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز اور وفاقی وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ کی مشترکہ صدارت میں ہونیوالے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں افغان مہاجرین کی جلد واپسی کے طریقہ کار کا جائزہ لے کر اس پر مو¿ثر عملدرآمد کا فیصلہ کیا گیا ہے اور وزیراعظم کے احکامات کی روشنی میں افغان مہاجرین کی واپسی کا طریق کار طے کیا گیا ہے جبکہ وفاقی وزیر سیفران نے خود بھی اجلاس میں اس امر کا ہی اظہار کیا ہے کہ افغان مہاجرین کو اب ہرصورت اپنے ملک واپس جانا ہو گا۔
Afghan Refugees
اس حوالے سے انہوں نے خیبر پی کے حکومت کے موقف کو بھی درست قرار دیا ہے اس لئے محمود خان اچکزئی کی جانب سے ایک طے شدہ معاملے کو متنازعہ بنانا انکے کسی اور ایجنڈے کی عکاسی کرتا ہے۔ سیاست میں اختلاف رائے تو یقیناً کوئی اچنبھے کی بات نہیں اور محمود خان اچکزئی کا خیبر پی کے کی حکمران تحریک انصاف کے ساتھ اختلاف رائے ہو سکتا ہے جس کا وہ تحریک انصاف کے پارلیمنٹ ہاوس کے باہر دھرنے کے دوران اظہار بھی کرتے اور پاکستان کی بقاء کیلئے سسٹم کے استحکام کا درس دیتے رہے ہیں جبکہ اب وہ پاکستان کے ایک صوبے کو افغانستان کا حصہ قرار دے رہے ہیں تو انہیں اپنی ادائے بے نیازی پر خود ہی غور کرلینا چاہیے کہ وہ پاکستان کے استحکام کی سیاست کررہے ہیں یا پاکستان کو کمزور کرنے کی؟ انکے اس موقف کے بعد تو پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعہ میں الجھی ہوئی کابل انتظامیہ کے حوصلے بھی بلند ہونگے جو پہلے ہی طور خم بارڈر پر پاکستان کی جانب سے اسکی اپنی ہی سرزمین پر گیٹ تعمیر کرنے کی مزاحمت کررہی ہے اور پاکستان کو اس معاملہ میں غیرقانونی اقدام اٹھانے کا موردالزام ٹھہرا رہی ہے۔
کابل انتظامیہ کی جانب سے ڈیورنڈ لائن پر دیوار تعمیر کرنے یا فینسی باڑ لگانے کی بھی اس جواز کے تحت مخالفت کی جاتی رہی ہے کہ سرحد کے آرپار کے باشندے ایک ہی افغان قوم کا حصہ ہیں اس لئے ان پر ایک دوسرے کی جانب آنے جانے پر پابندی نہیں ہونی چاہیے مگر پاک افغان سرحد پر کسی قسم کی روک ٹوک نہ ہونے کے نتیجہ میں پرامن شہریوں کے بھیس میں دہشت گردوں کو بھی آزادانہ نقل و حرکت اور اس طرح پاکستان میں دہشت گردی کی گھناونی وارداتیں کرنے کا موقع ملا’ نتیجتاً حکومت پاکستان طورخم میں پاک افغان سرحد پر آمدورفت کو کنٹرول کرنے اور ضابطے میں لانے پر مجبور ہوئی۔ بجائے اسکے کہ ملک کے امن و استحکام کی خاطر محمود خان اچکزئی اپنی ہی حکومت کے اس اقدام کی تائید کریں’ انہوں نے خیبر پی کے کو افغانیوں کا قرار دے کر پاکستان کو خدانخواستہ کمزور کرنے سے متعلق پاکستان دشمنوں کے مشن کو آگے بڑھانے کا راستہ نکالنے کی کوشش کی ہے۔ اس کا وزیراعظم نوازشریف کو خود نوٹس لینا چاہیے اور اپنے حکومتی حلیفوں کے معاملات کی بھی جانچ پڑتال کرنی چاہیے کہ کہیں انکی اپنی صفوں میں سے ہی وطن عزیز کی سالمیت پر آری چلانے کی سازش تو نہیں کی جا رہی۔