تحریر : حفیظ خٹک عظیم پاکستان میں برسوں سے قوم پرستی کے علمبردار محمود اچکزئی سمیت متعدد ہیں۔ یہ سب ملک کے منافق ہیں، رہتے، کھاتے پیتے، کماتے اور حتی کے قومی انتخابات تک میں حصہ لیتے ہیں اور بھونڈے انداز میں جیت کر اسمبلی میں حلف دیکھانے کیلئے اس ملک کی وفاداری کا اٹھاتے ہیں، نظر آنے والے اعمال بڑے صاف و شفاف ہوتے ہیں لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہی ہوتی ہے۔ ایک محمود اچکزئی ہی نہیں تمام قوم پرستوں کے باب کھول کے دیکھو تو ایک قدر سب ہی کی مشترکہ ہے اور وہ صفت منافقت ہے۔
ان منافقین کو ماننے والوں کی بھی شان عجب نہیں عجب و غریب ہے۔ وہ رہنما جو اس ملک کو نہیں مانتے ، اس ملک کے کسی بھی قانون تو کیا کسی بھی چیز کو نہیں مانتے وہ صرف اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے اپنا ایک قدم نہیں ہر قدم اٹھاتے ہیں اور اٹھاتے چلے جاتے ہیں نہ تو ان سے ان کے وہ آقا خوش ہوتے ہیں اور نہ ان کے وہ مقاصد پورے ہوتے ہیں جس کے باعث وہ بھی عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کبھی ایک قوم پرست کو اور کبھی دوسرے کو پکڑتے ہیں اس پر اپنا پیسہ لٹاتے ہیں اور اپنی مرضی کے کام کرانے کے بعد اسے بھی ایک جانب استعمال شدہ کا لیبل لگا کر رکھ دیتے ہیں ۔ ماضی میں ایسے ہی ایک عدم تشددکے پیروکار باچا خان گذرے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں پاکستان کی مخالفت کی ، مر کر بھی اس ملک کی سرزمین میں دفن ہونا پسند نہیں کیا اور دفن بھی افغانستان جاکر ہی ہوئے۔
ان کی عوامی نیشنل پارٹی کے نام سے سیاسی تنظیم جو ایک جانب پاکستان کے پختونوں کی نمائندہ تنظیم بننے کی کوشش کرتی ہے اور اپنے مفادات سمیٹنے کی اپنی ہی باتیں بھول جاتی ہے ۔ اسی قوم پرست جماعت کوکے پی کے میں حکومت کرنے کا جب موقع ملا تو جی بھر کر لوٹ مار کے بازار گرم کئے اور ان پر پردہ صوبے کا نام بدل کر لینے کی کوشش کی ۔ لیکن اس کے بعد کے انتخابات میں انہیں جس انداز میں صوبے ہی میں نہیں دیگر صوبوں میں بھی شکست ہوئی اس پر بھی انہیں ہوش نہیں آیا اور ایسا لگتا ہے کہ ہوش آئے گا بھی نہیں۔ تاریخ کے جس بدترین دور سے یہ پارٹی اس وقت گذر رہی ہے اس کا احساس ان ہی کے ایک ایک کارکن کو ہے اور اسی وجہ سے وہ اس پارٹی کو چھوڑ کر دیگر میں شامل ہوتے جارہے ہیں۔
ANP
اے این پی کوصوبے بھر میں حکومت کرنے کا موقع ملا ان کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اب وہاں کی عوام انہیں ماضی کا تلخ باب سمجھ کر آئندہ ووٹ تو کیا ان سے کسی بھی قسم کے تعاون کی سوچ کو اپنے دل و دماغ میں جگہ نہیں دے گی ۔ اسی اے این پی کو شہر قائد میں دو عدد نشستیں حاصل ہوئیں جس کے بعد انہوں نے جرائم کی اک جید تاریخ مرتب کردی۔ اس کے بعد ان کی حالت پر گفتگو کرنا وقت کے ضیاع کے سوا کچھ بھی نہیں۔
محمود اچکزئی جیسے سیا ستدان کو ان کی زندگی میں ، ان کی موجودگی میں قابل تعریف صرف وہی لوگ کہیں گے جن کیلئے وہ کام کرتے رہے ہیں ان کے علاوہ اس ملک کا کوئی بھی مخلص انہیں اچھے الفاظ میں کبھی یاد ہی نہیں ذکر بھی نہیں کرے گا۔ بلوچستان میں چند نشستیں ہیں جن کا انہیں حصول ہوتا رہا ہے ۔ ہر حکومت ان کو خوش رکھنے کیلئے انہیں اپنے ساتھ ملاتی رہی ہے اور اس بار تو میاں نواز شریف نے ان کو ملانے کی بھی ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔
Pakistan
انہی محمود خان اچکزئی کے بھائی محترم کو پورے صوبے کاگورنر بنادیا گیااور ان کے بیٹوں ، بھتیجوں ، اور دیگر رشتہ داروں کو بھی ہر طرح سے نوازا گیا۔ اس قدر عنایتوں کے باوجود انہوں نے افغانستان جاکر وہ باتیں کیں جن کے کرب وہ مدت سے مخصوس کر رہے تھے لیکن ان کاذکر اپنی زبان پر نہیں لائے تھے ۔ کابل میں دورے کے دوران ایک اخبار کو انٹریودیتے ہوئے انہوں نے یہاں تک کہا کہ صوبہ سرحد جو کہ اب کے پی کے کانام سے جانا اور پہچاناجاتا ہے وہ تو پاکستان کا حصہ ہے ہی نہیں وہ تو افغانستان کا حصہ ہے ۔لہذا پاکستان میں رہنے والے افغانوں کو اگر دیگر صوبوں میں مشکلات کا سامنا ہے تو انہیں چاہئے کہ وہ کے پی کے میں جائیں وہ ان کیلئے اپنے ملک کی ہی طرح ہے۔
اس سیاستدان نے یہ بات کیسے کہی اور جب ملک میں ان سے بازپرس شروع ہوئی تو اس پر مزید منافقانہ کارکردگی کا مظاہر ہ کرتے ہو ئے اپنی کہی ہوئی باتوں سے ہی انکار کردیا ۔ ایسے ہی سیاستدانوں کیلئے کہا گیا ہے کہ شرم ہم کو مگر آتی نہیں ۔۔۔ان کے اس عمل کے بعد ہونا تو اب یہ چاہئے کہ صدر ،وزیر اعظم ، آرمی چیف ، چیف جسٹس، اسپیکر قومی اسمبلی و دیگر ذمہ داران ان کے خلاف نوٹس لیں اور ان کے خلاف نہ صرف نوٹس لیں بلکہ عملی کاروائی کریں تاکہ آئندہ کسی کوبھی پاکستان میں یا اس سے باہر اس طرح کی کارکردگی کا موقع نہ مل پائے اورا گر موقع ملے بھی تو اسے استعمال کرنے کا سوچے بھی نہیں۔
Afghanistan
اگر مذکورہ ذمہ داران میں سے کوئی قدم نہیں اٹھاتا تو پھر ملک کی مخلص عوام اپنے ملک و قوم کیلئے ازخود اقدام اٹھائے گی ،جسے محمود اچکزئی کیلئے دل میں نرم گوشہ رکھنے والے بعض حکمران دہشت گردی کا ، طالبانائزیشن کا یا پھر کوئی بھی نام دے کر ملک کے ہی مخلصوں کو سزاؤں سے نوازے گی۔لہذا عوام کو اپنے پرخلوص جذبات کے اظہار سے روکنے کیلئے انہیں اپنے عہدوں کے لئے ، اٹھائے گئے حلف کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی مثبت اقدام اٹھانا لینا چاہئے۔ ۔۔۔