تحریر: محمد مظہر رشید چوہدری راجہ عزیز بھٹی شہید (نشان حیدر) 6 اگست 1923ء کو ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والد راجہ عبداللہ بھٹی اپنی ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد یہ گھرانہ واپس لادیاں گجرات چلا آیا جو ان کا آبائی گاؤں تھا۔ راجہ عزیز بھٹی قیام پاکستان کے بعد 21 جنوری 1948ء کو پاکستان ملٹری اکیڈمی میں شامل ہوئے۔ 1950ء میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کے پہلے ریگولر کورس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں انہیں شہید ملت خان لیاقت علی خان نے بہترین کیڈٹ کے اعزاز کے علاوہ شمشیر اعزازی اور نارمن گولڈ میڈل کے اعزاز سے نوازا پھر انہوں نے پنجاب رجمنٹ میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی اور 1956ء میں ترقی کرتے کرتے میجر بن گئے۔ راجہ عزیز بھٹی کی شخصیت کا ایک پہلو ایمانداری تھا جس پر وہ کبھی کوئی سجھوتہ نہ کرتے تھے۔
دورانِ تربیت ایک مرتبہ ان کے کلاس انچارج نے پوری کلاس سے سبق یاد کر کے لانے کو کہا۔دوسرے دن جب پہلے ہی لڑکے سے سوال کیا گیا تو پتہ چلا ہ اسے سبق یاد ہے مگر وہ ہوم ورک کر کے نہیں لایا۔بھٹی، کلاس انچارج نے راجہ عزیز بھٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا “تمام لڑکوں کے نام لکھو جو آج ہوم ورک کر کے نہیں لائے”یس سر”میجر صاحب نے جواب میں کہا اورجلد ہی ایک فہرست استاد کوپیش کی۔یہ کیا؟ استاد نے فہرست میں سب سے اوپر خود راجہ عزیز بھٹی کا نام لکھا دیکھ کر حیرت سے کہا۔تم نے اپنا نام سب سے اوپر کیوں لکھا؟ اس لئے سر۔کہ میں بھی ہوم ورک کر کے نہیں لایا۔مگر تم اپنا نام نہ بھی لکھتے تو کیا حرج تھا؟” استاد نے کہا۔نو سر جب میں کام کر کے نہیں لایا تو ایمانداری کا تقاضہ ہے کہ اپنا نام بھی لکھو اور سب سے اوپر لکھوں انہوں نے ادب سے جواب دیا۔شاباش بھٹی ،استاد کی آنکھوں میں ایک عجیب چمک آئی میری بات یاد رکھنا۔ تم ایک دن کوئی بہت بڑا کارنامہ سرانجام دو گے۔ اللہ نے تمہیں ایسی عادات یونہی ودیعت نہیں کیں۔ وہ تم سے کوئی خاص کام لینا چاہتا ہے۔راجہ عزیز بھٹی مسکرا کر رہ گئے۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کے استاد نے کتنی بڑی سچائی کی خوشبو سونگھ لی تھی۔بہن بھائیوں میںآپکا نمبر چوتھا تھا۔ آپ سے بڑے دو بھائی اورایک بہن تھی۔والدین نے ان کا نام عزیز احمد رکھا مگر آپکے خوبصورت نقوش نے ان کو “راجہ” کا ایسا نام دے دیا جو آج بھی زبان زد عام ہے شہزادوں جیسی صورت وشخصیت کے حامل عزیز بھٹی کو جس نے بھی پکارا، راجہ یا بھٹی صاحب کہہ کر پکارا۔ہانگ کانگ کے جزیرے پر ایک چینی نجومی نے ایک بار راجہ عزیز بھٹی کو دیکھا تو بے اختیار پیشن گوئی کی۔یہ بچہ زندگی میں بے حد نام کمائے گا۔ جب یہ دنیا سے رخصت ہو گا تو اس کی شہرت زبان زدِ عام ہو گی۔آپ زمانہ طالبِ علمی میں ہی سے کرکٹ، ہاکی، ٹینس اور فٹ بال کے بہترین کھلاڑی تھے۔ ان کھیلوں سے ان کی شخصیت میں ڈسپلن پیدا ہوا۔
دوسری جنگِ عظیم کا اختتام اگست 1946 میں ہوا۔حالات کو دیکھتے ہوئے میجر صاحب کے والدین نے نقل مکانی کا فیصلہ کیا اور بچوں کو ساتھ لے کرہانگ کانگ سے پاکستان چلے آئے۔ اِن کا آبائی گاؤں لادیاں تھا جو ضلع گجرات میں واقع ہے۔یہ گاؤں راجہ عزیز بھٹی کے بزرگوں کی آماجگاہ ہے۔لادیاں میں رہائش پذیر ہوئے ابھی چند ہی ہفتے گزرے تھے کہ آپکو ایک حادثہ پیش آیا۔ ہوا یہ کہ میجر صاحب اپنے بھائی نذیر احمد کے ساتھ سائیکل پر کہیں جا رہے تھے کہ ایک ہندو لڑکا سائیکل کے سامنے آ گیا۔رُکتے رُکتے بھی سائیکل اس سے جا ٹکرائی۔لڑکا شدید زخمی ہو گیا۔دونوں بھائیوں نے لڑکے کو اٹھایا اور دولت نگر ہاسپٹل میں لائے ڈاکٹر نے لڑکے کی مرہم پٹی کی اور ایک دوائی لکھ کر دی ۔یہ دوا کہاں سے مل سکے گی ڈاکٹر صاحب؟راجہ عزیز بھٹی نے پوچھا۔لالہ موسٰی(شہر کا نام ) سے ڈاکٹر نے جواب دیا ۔لالہ موسٰی سے؟نذیر احمد نے راجہ عزیز بھٹی کی جانب دیکھا۔ وہ تو چودہ پندرہ میل دور ہے!جانا تو پڑے گا بھائی جان۔یہ اس لڑکے کی زندگی کا مسئلہ ہے۔”راجہ عزیز بھٹی نے بیڈ پر پٹیوں میں جکڑے لڑکے کی جانب دیکھ کر کہا۔چنانچہ سخت گرمی،ٹوٹی پھوٹی سٹرک اور پندرہ میل کے فاصلے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دونوں بھائی سائیکل پر لالہ موسٰی پہنچے اور دوا لے کر جب ہاسپٹل واپس پہنچے تو ڈاکٹر ان کی انسانی ہمدردی سے بے حد متاثر ہوا۔تم دونوں نے ایک غیر مسلم زخمی کی اس طرح مدد کر کے بہترین مثال قائم کی ہے۔یہ ہمارا فرض تھا ڈاکٹر صاحب۔راجہ عزیز بھٹی نے جواب دیا اور لڑکے سے مل کر ہاسپٹل سے روانہ ہو گئے۔ 1947 میںآپ کی شادی اپنے ہی گاؤں میں صوبیدار اکرام الدین بھٹی کی صاحب زادی محترمہ زرینہ بیگم سے ہو گئی۔شادی کے کچھ ہی عرصہ بعد میجر صاحب اور ان کے بھائی نذیر احمد اور سردار محمد انڈین ائیرفورس میں بھرتی ہو گئے۔اِسی سال اگست میں پاکستان معرض وجود میں آ گیا اور ان کے متعلقہ دستے راولپنڈی آ گئے۔ یہاں آتے ہی میجر صاحب نے پاک آرمی میں کمیشن کے لئے درخواست دے دی جو خوش قسمت سے منظور ہو گئی اورآپ پاک آرمی میں آگئے پاکستان بننے کے بعد ایبٹ آباد کے قریب کاکول میں ملٹری اکیڈمی میں فوجی ٹریننگ کی کلاسز کا اجراء ہوا۔
آپ نے بے پناہ محنت اور سخت مقابلے کے امتحان میں کامیابی کے بعد اس ٹریننگ کے لئے داخلہ حاصل کر لیا۔مقابلہ بے حد سخت اور سفارش و رعایت کا کوئی چانس نہ تھا۔میجر صاحب نے ادارے کے تمام تربیتی امتحانات بہت اچھے نمبروں سے پاس کئے۔اس ادارے کا سب سے بڑا انعام نادرن گولڈ میڈل تھا جو آپ نے اپنی محنت اور مسلسل کوشش کے نتیجے میں حاصل کر کے ثابت کر دیا کہ وہ جس کام کا ارادہ کر لیتے تھے اس میں کامیاب ہو کر ہی رہتے تھے۔برکی کا علاقہ 29 مئی 1965 کو میجر راجہ عزیز بھٹی کو اس علاقے میں موجود پاک فوج کے دستے کا کمانڈر مقرر کیا گیا۔ چارج لینے سے چند دن بعد کی بات ہے کہ ان کے دوست میجر خوش دل آفریدی کی شہادت کی خبر پھیل گئی۔میجر خوش دل آفریدی جون 1965 میں رَن کچھ کے علاقے میں ایک بارودی سرنگ پھٹنے سے شدید زخمی ہو کر بھارتی فوج کے ہاتھوں قید ہو گئے اور خبریہ پھیل گئی کہ وہ شہید ہو گئے ہیں۔چونکہ تردید یا تصدیق کا کوئی ذریعہ نہ تھا اس لئے اسے سچ ہی مان لیا گیا مگر محکمانہ طور پر ابھی معاملہ زیرِ تحقیق ہی تھا۔اس معاملے کی محکمانہ کاروائی چل رہی تھی کہ راجہ عزیز بھٹی نے چارج لینے کے کچھ عرصہ بعد 19 جولائی 1965 سے 18 ستمبر 1965 تک دو ماہ کی چھٹی لی اور گھر چلے آئے۔گھر پہنچے تو میجر صاحب کی بیگم نے میجر آفریدی کے بارے میں پوچھا۔ راجہ عزیز بھٹی نے بات کو ٹال دیا اور کوئی تسلی آمیز جواب نہ دیا۔ بیگم نے ذرا کرید کر سوال کیا تو راجہ عزیز بھٹی نے جواباََ پوچھا۔تم اتنی شدت سے کیوں جواب چاہ رہی ہو؟اس لئے کہ مجھے لگتا ہے کہ آپ میجر آفریدی کی شہادت سے پریشان ہیں،بیگم نے ان کے چہرے کو غور سے دیکھ کر کہا۔پگلی ہو تم راجہ عزیز بھٹی ہنس پڑے۔دیکھو ابھی تک تو آفریدی کی شہادت کی تصدیق نہیں ہوئی۔ تفتیش چل رہی ہے۔تحقیق کے مراحل طے ہو رہے ہیں۔لیکن اگر آفریدی شہید ہو گیا ہے تو اس سے بڑھ کر اس کے لئے خوش نصیبی اور کیا ہو گی۔ اس کے لئے دین اور دنیا میں یہ سب سے بڑا اعزاز ہے اور میرے لئے فخر کی بات یہ ہے کہ شہید ہونے والا آفریدی میرا دوست ہے۔میں سمجھی شاید آپ، بیگم نے کہنا چاہا۔زرینہ یہ زندگی اگر اللہ کی راہ میں خرچ ہو جائے۔ موت آئے اور شہادت کے روپ میں آئے تو اللہ سے مانگنے کے لئے بندے کے پاس کیا رہ جاتا ہے۔بیگم ان کے جواب سے مطمئن ہو گئیں اور راجہ عزیز بھٹی کے بارے میں ان کے دل میں عزت و احترام کے جذبات دو چند ہو گئے۔29 اگست 1965 کا دن تھا جب ان کو اطلاع ملی کہ ان کی چھٹی منسوخ کر دی گی ہے اور ہنگامی حالات کے تحت ان کو فوراََ ڈیوٹی پر حاضر ہونے کا حکم دیا جاتا ہے۔ راجہ عزیز بھٹی نے اگلی صبح ہی ڈیوٹی پر لوٹ جانے کے لئے تیاری شروع کر دی۔وہ ان کی اپنے اہل و عیال کے ساتھ آخری رات تھی جب وہ رات کھانے پر ان کے ساتھ بیٹھے بات چیت کر رہے تھے۔ہنگامی حالات کے باعث تو چھٹی منسوخ ہو گئی۔کیا حالات درست ہونے پر دوبارہ چھٹی مل سکے گی؟ بیگم نے افسردگی سے پوچھا۔ضرور مل سکے گی۔تم اداس کیوں ہو رہی ہو۔ایک فوجی کی زندگی میں تو یہ اتار چڑھاؤ آتے ہی رہتے ہیں۔
راجہ عزیز بھٹی نے ہنس کر کہا۔ابا جان! کیا بھارت سے ہماری جنگ ہونے والی ہے؟اچانک ان کے چھوٹے بیٹے ذوالفقار نے سوال کیا۔ہاں بیٹا لگتا ہے اب جنگ ہو کر رہے گی۔ حالات اس قدر خراب کبھی نہیں رہے جس قدر ان دنوں ہیں۔ راجہ عزیز بھٹی نے سنجیدگی سے جواب دیا۔تو ابا جان جنگ میں پیٹھ نہ دکھانا۔بھولپن میں جوش بھرے لہجے میں بیٹے نے ہاتھ کا مکا بنا کر کہا۔شاباش راجہ عزیز بھٹی نے بیٹے کو چوم لیا۔ دیکھا زرینہ۔ انہوں نے اپنی بیگم کی طرف دیکھ کر کہا۔سنا تم نے۔ تمہارا بیٹا کیا کہہ رہا ہے؟”پھر بیٹے سے مخاطب ہو کر بولے۔تم بھی میری ایک بات یاد رکھنا بیٹا!حکم دیجئے ابا جان۔ننھا ذوالفقار بولا۔اگر میں جنگ میں لڑتا ہوا شہید ہو گیا تو آنسو مت بہانا ۔راجہ عزیز بھٹی نے جیسے بیٹے سے عہد لے لیا۔5 ستمبر کی صبح جب راجہ عزیز بھٹی نے فجر کی نماز کے بعد حسب معمول قرآن پاک کی تلاوت کی۔ ترجمہ پڑھا۔ سب سے چھوٹے بیٹے جاوید اقبال کو گود میں اٹھا کر پیار کیا۔اسی وقت جیپ ان کو لینے آ گئی۔ ان کے خادم نادر نے سامان جیپ میں رکھا۔ راجہ عزیز بھٹی بچوں کے بعد بیوی سے ملے۔ باقی گھر والوں سے ملاقات کی اور سب کو اللہ حافظ کہہ کر ڈیوٹی پر روانہ ہو گئے۔6 ستمبر 1965 وہ تاریخی دن جب مکار، عیار اور بزدل بھارت نے فجر سے پہلے ہمارے پاک وطن پر چوری چھپے لاہور کی جانب سے حملہ کیا۔پاکستان کے نامور سپوت6 ستمبر 1965ء کو جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو میجر عزیز بھٹی لاہور سیکٹر میں برکی کے علاقے میں ایک کمپنی کی کمان کررہے تھے۔کمپنی کے دو پلاٹون بی آر بی نہر کے دوسرے کنارے پر متعین تھے۔ میجر عزیز بھٹی نے نہر کے اگلے کنارے پر متعین پلاٹون کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ ان حالات میں جب کہ دشمن تابڑ توڑ حملے کررہا تھا اور اسے توپ خانے اور ٹینکوں کی پوری پوری امداد حاصل تھی۔ میجر عزیز بھٹی اور ان کے جوانوں نے آہنی عزم کے ساتھ لڑائی جاری رکھی اور اپنی پوزیشن پر ڈٹے رہے۔ 9 اور 10 ستمبر کی درمیانی رات کو دشمن نے اس سارے سیکٹر میں بھرپور حملے کے لیے اپنی ایک پوری بٹالین جھونک دی۔ میجر عزیز بھٹی کو اس صورتحال میں نہر کے اپنی طرف کے کنارے پر لوٹ آنے کا حکم دیا گیا مگر جب وہ لڑ بھڑ کر راستہ بناتے ہوئے نہر کے کنارے پہنچے تو دشمن اس مقام پر قبضہ کرچکا تھا تو انہوں نے ایک انتہائی سنگین حملے کی قیادت کرتے ہوئے دشمن کو اس علاقے سے نکال باہر کیا اور پھر اس وقت تک دشمن کی زد میں کھڑے رہے جب تک ان کے تمام جوان اور گاڑیاں نہر کے پار نہ پہنچ گئیں۔انہوں نے نہر کے اس کنارے پر کمپنی کو نئے سرے سے دفاع کے لیے منظم کیا۔
دشمن اپنے چھوٹے ہتھیاروں،ٹینکوں اور توپوں سے بے پناہ آگ برسا رہا تھادشمن کی راہ میں اس محاذ پر سب سے بڑی رکاوٹ میجر راجہ عزیز بھٹی تھے۔ ان کی نشانہ لگوانے کی خدا داد صلاحیت نے اسے ناکوں چنے چبوا دئیے تھے۔ان کے ساتھی بھی ان کے ہر حکم پر جان کی پرواہ کئے بغیر ایک پل کے وقفے میں اس طرح عمل کرتے تھے کہ ان کو خود پر حیرت ہوتی تھی۔اس محاذ پر گزشتہ چھ دن اور چھ راتوں سے دشمن کا اس قدر جانی اور مالی نقصان ہو چکا تھا کہ جس کا تصور بھی محال تھا۔بار بار کی ناکامی اور مسلسل نقصان نے دشمن کو اعصابی دباؤ کا شکار کر دیا تھا اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ذ ہنی طور پر بھارتی فوج اس محاذ پر ایک سو پچاس (150) مسلمان فوجیوں کی مختصر نفری سے شکست کے جان لیوا احساس کمتری میں مبتلا ہو چکی تھی۔ ان کی ہزاروں کی نفری صفر ہو کر رہ گئی تھی۔اب تک اس محاذ پر اس کے سینکڑوں فوجی جہنم رسید ہو چکے تھے جبکہ جواب میں پاکستانی فوج کے صرف گیارہ (11) جوان شہید ہوئے تھے۔12 ستمبر 1965 کا دن میجر عزیز بھٹی نے وضو کیا۔ فجر کی نماز ادا کی۔ شیو بنائی، بالوں میں کنگھی کی۔ تیار ہو گئے تو خادم چائے لے آیا۔چائے سے فارغ ہوئے تو وردی لانے کا حکم دیا۔ پتہ چلا کہ ان کی وردی تیار نہیں ہے۔ خادم کسی اور کی تیار وردی لے آیا تو میجر عزیز بھٹی نے انکار کر دیا اور ایک تاریخی فقرہ کہا:جوان وردی اور کفن اپنا ہی اچھا لگتا ہے۔یہ کہہ کر میجر صاحب نے قدم پٹڑی کی جانب بڑھا دئیے جہاں کھڑے رہ کر انہیں آج بھی اپنے دستے کے لئے او پی کے فرائض سر انجام دینا تھے۔بھارتی فوج کی فائرنگ صبح کاذب سے شدت کے ساتھ جاری تھی۔ یوں لگتا تھا کہ اس کے پاس اتنا وافر اسلحہ ہے کہ وہ بے دریغ چلائے جا رہی ہے۔ گولے میجر عزیز بھٹی کے دائیں بائیں گر رہے تھے۔ دو تین گولے ان سے آگے چند گز کے فاصلے پر بھی گر کر پھٹے۔سر۔۔۔۔ فائر آ رہا ہے۔
نیچے آ جائیں۔حوالدار میجر فیض علی نے پکار کر کہاحوالدار۔ میجر صاحب نے ہنس کر کہا کتنی بار کہہ چکا ہوں کہ پٹڑی سے نیچے دشمن پر نگاہ رکھنا ممکن نہیں اور ویسے بھی جو مزہ اس گولہ باری کی بارش میں کھڑے رہ کر فرض ادا کرنے میں ہے وہ محفوظ مقام پر کہا!اسی وقت میجر صاحب نے دیکھا کہ برکی کی طرف سے چند بھارتی ٹینک تیزی سے نہر کی جانب بڑھے چلے آ رہے ہیں۔ انہوں نے فوراََ توپ خانے کو اس طرف گولہ باری کا حکم دیا۔ فائر ٹھیک نشانے پر لگا۔ بھارتی ٹینک بچوں کے کھلونوں کی طرح فضا میں اچھلے اور آگ کے شعلوں میں گھرے زمین پر گر پڑے۔شاباش خوش ہو کر میجر عزیز بھٹی نے توپچی کو داد دی۔ اسی وقت ایک گولہ ان کے سامنے موجود درختوں پر آ کر گرا۔ آگ، گردوغبار اور دھماکوں کا ایک طوفان اٹھا مگر میجر صاحب کو خراش تک نہ آئی۔ساڑھے نو صبح کا وقت تھا جب دشمن کے ایک توپچی نے گولہ فائر کیا۔گولہ فضا میں بلند ہوا۔آگ کا دہکتا ہوا وہ گولہ سیدھا میجر راجہ عزیز بھٹی کے سینے سے آ ٹکرایا اور پھیپھڑے پھاڑتا ہوا نکل گیا۔میجر عزیز بھٹی اچھلے اور لڑکھڑا کر گر پڑے۔اللہ کا سپاہی اپنے فرض کی ادائیگی میں جام شہادت نوش کر چکا تھا۔
لو وصل کی ساعت آپہنچی پھر حکم حضوری پر ہم نے آنکھوں کے دریچے بند کئے اور سینے کا در باز کیا
چند لمحوں تک جب میجر عزیز بھٹی کی آواز نہ ابھری تو ان کے ساتھی گھبرا گئے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ مسلسل ہدایات دینے والے میجر عزیز بھٹی دشمن کی گولہ باری کے جواب میں خاموش ہو جائیں۔وہ لوگ تیزی س پٹڑی پر پہنچے اور یہ دیکھ کر ان کے سانس رک گئے کہ میجر عزیز بھٹی اپنے فرض پر قربان ہو چکے تھے۔23 مارچ 1966 یوم جمہوریہ پاکستان کا دن تھا جب صدر پاکستان جنرل محمد ایوب خان نے” قومی ہیروز” کو اعزازات دینے کی اس تقریب میں شرکت کی پاک فوج کے 94 افسروں اور فوجیوں کو جنگ ستمبر میں بہادری کے نمایاں کارنامے انجام دینے پر مختلف تمغوں اور اعزازات سے نوازا گیادیگر اعزاز یافتگان کے ساتھ میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کی شاندار شہادت کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی طرف سے نشانِ حیدر دینے کا اعلان کیا زندہ قومیں اپنے محسنوں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔