تحریر: عاقب شفیق چار روز کام سے نجات پائی اور دیرینہ تھکاوٹ سے نجات پانے کی غرض سے تفریحی مقامات کا رخ کرنے کا سوچا تو انتخاب کافی مشکل عمل رہا کہ مری جا کر پتریاٹہ کی چیئر لفٹ، ایوبیہ، نتھیاگلی اور ڈونگا گلی سمیت دیگر گلیات کی سرد ہواؤں سے لطف اندوز ہوا جائے یاشاہراہِ ریشم کے دلکش سفر کے ذریعے بالاکوٹ، ناران، کاغان، داسو، شوگران اور سیف الملوک جیسے تاریخی، تفریحی اور دلکش مقامات سے محظوظ ہوا جائے۔ فیصلہ اس لیئے بھی دشوار تھا کہ دونوں مقامات ایک سے بڑھ کر ایک قدرتی حسن و جمال کے نظارے لیئے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ جب انتخاب ناممکن معلوم ہوا تو قرعہ اندازی نے ہماری منزل ”مری“ بتائی۔ چنانچہ میرے ساتھ بلال بھائی نے بھی رخت ِ سفر باندھا۔
فیض آباد کے لئے ویگن پر بیٹھے۔میرے بائیں جانب ایک ضعیف العمر بابا جی نشست پر سُکڑ کر براجمان تھے سفید رنگ کا پرانا کاٹن کا سوٹ پہن رکھا تھا۔باریش،درویش طبیعت کے مالک اور عجز وا نکسار ان کے انگ انگ سے ٹپک رہا تھا۔ میں مری پہنچنے کے لئے کافی بے قرار تھا۔ میری خواہش تھی کہ کہیں اُڑ کر فورا ً سے پہلے وہاں پہنچ جاؤں۔ بلال بھائی کے ارادوں کو بھانپنے کے لئے نگاہیں انکی جانب اُٹھائیں تو وہ شیشے سے باہر دیکھ رہے تھے چہرے پر قدرتی مسکراہٹ نمایاں تھی۔ میری طرف مڑے اور دونوں آنے والے دلچسپ لمحات کو ذہن میں لاتے ہوئے ہنس پڑے۔
کنڈکٹر نے کرایہ طلب کیا اور سب سے اکٹھا کرنے لگا۔ تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ کنڈکٹر اس ضعیف العمر بابا سے بدتمیزی سے گویا ہوا”چاچا! کرایہ دے۔دو منٹ ہو گئے تیرے منہ کو دیکھ رہا ہوں۔ میرے پاس وقت نہیں ہے جلدی کر۔۔۔“ بابا جی نے کانپتے ہاتھوں سے قمیض کو اوپر کیا اور نیچے پہنی بنیان کا بٹن دھیرے دھیرے کھولا اور دس روپے کا ایک پھٹا پرانا نوٹ کنڈکٹر کی طرف بڑھا دیا۔ ”پانچ اور دے چاچا“ ”بیٹا! میرے پاس نہیں ہیں اور۔ اللہ تمہیں بہت دے گا۔ میں نے آگے گھر بھی پہنچنا ہے۔ جب کبھی ہوئے تو تمہیں ضرور دونگا“ بابا جی شرمندگی سے سب لوگوں سے نظریں چرا کر دھیمے اور التجا بھرے لہجے میں گفتگو کر رہے تھے۔
Allah
کنڈکٹر نے ایک لمحہ بھی صبر کئے بغیر ڈرائیور کو گاڑی روکنے کا کہا ”جیب میں پیسے نہیں اور آ جاتے ہیں گاڑی پر، جب پیسے ہوں تب بیٹھنا، گاڑی پانی پہ نہیں چلتی اس میں تیل ڈالتے ہیں تب چلتی ہے چلو جلدی نیچے اترو میرے پاس وقت نہیں ہے“ ”ٹھہرو بھائی جان میں کرایہ دے دیتا ہوں“ بلال بھائی بولے۔ اسی اثنا ء میں ایک اور صاحب نے ہزار کا نوٹ کنڈکٹر کی طرف بڑھایا اور کہا کہ دوبارہ ایسا سلوک کسی سے نہ کرنا۔۔۔۔۔ بابا جی نے سب کا شکریہ ادا کیا اوربولے ”بیٹا خدا تمہارا بھلا کرے؟ بیس سال شادی کو ہو گئے ہیں، اولاد نہیں ہے، جب بھی علاج کا اردہ کرتا تو جیب اجازت نہیں دیتی اور لوگ بھی کہتے ہیں کہ اللہ کے ہر کام میں بہتری ہوتی ہے۔
مجھے کوئی بتائے کہ اس میں کیا بہتری ہے کہ میں پچپن سالہ بوڑھا، جو کہ ٹھیک طرح سے چلنے سے قاصر ہوں کسیے مزدوری کروں؟ مزدوروں کی صف میں ہر روز کھڑا ہوتا ہوں لیکن جو صاحب بھی مزدور لینے آتا ہے وہ ہٹے کٹے اور نوجوان مزدوروں کو ساتھ لے جاتا ہے اور میں ہر روز خالی ہاتھ گھر لوٹتا ہوں۔ بیوی بے چاری ہر دن کہیں سے پیاز مانگ لاتی ہے بس۔۔۔ ہمارا اکثر کھانا صرف پیاز پر مشتمل ہوتا ہے۔ برس بیت گئے اِ س غریب کی جھونپڑی میں آگ نہیں جلی۔۔۔ خدایا تیرے ہر کام میں بہتری ہے۔ یہ اچھا مذاق ہے۔۔ میں تو اس آس پہ جیتا ہوں کہ مرنا کب ہے؟ خدا تو واقع ہی بہترین منصف ہے؟ مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں۔۔۔۔“ وہ مسلسل رو رہے تھے۔ میرا دامن آنسوؤں سے تر ہو چکا تھا۔ ضمیر مسلسل کوس رہا تھا کہ ہمارے پڑوس میں ایسے بھی افراد ہیں لیکن ہم بے حس ہوچکے ہیں۔۔۔۔
یہ حج اور عمرے صوم صلاتیں کیا کر لیں گی آکر عابیؔ چار قدم پر تیرے پڑوسی اکثر بھوکے سوتے ہیں
کیا بہتر نہ ہوگا کہ ہم اپنے معاشرے میں، اپنے ارد گرد اور اپنے رشتہ داروں میں اس ضعیف العمر بابا جیسے افراد ڈھونڈیں اور انکا خیال رکھیں جو عمر گزار چکے ہیں لیکن پھر بھی مزدوری کیلئے دربدر ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں۔۔ اسلا م ہمیں زکوٰۃ کا حکم دیتا ہے۔ ہم زوال اور بے حسی کے حدوں سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ احساس ندارداور دوسروں کا خیال رکھنے کی حس ناپید ہو چکی ہے۔ہم کھوٹے سکوں کے لئے ضمیر بیچ دیتے ہیں اور پیسوں کے حصول کیلئے تو کسی شخص کی جان تک لے لیتے ہیں۔ کہاں ہے وہ پاکستان جس کا خواب ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ نے دیکھا تھا جس کے حصول کیلئے لاکھوں لوگوں (جن میں ہمارے آباء و اجداد تھے)نے اپنی جانوں تک کا نذرانہ دینے سے دریغ نہیں کیا؟ کہاں ہے وہ پاکستان جس کی بنیاد کلمہ کی بنیاد پر رکھی گئی؟ کہاں ہے وہ پاکستان جس کے بارے کہا جاتا تھا کہ یہ دوسرا مدینہ طیبہ ہوگا؟ یہاں حکمرانوں کا روزانہ کا خرچ کروڑوں روپے کا ہے اور ایک ایسا پاکستانی بھوکا مر رہا ہے جس کا زندگی بھر کے خرچ کا حساب لگا یا جائے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر ِ اعظم کے روزانہ کے خرچ سے کم ہو گا۔
ہم کس سمت میں چل رہے ہیں؟ ہماری منزل کہاں اور کیا ہے؟ میرے ساتھ میرے ابو اور دادا کی عمر کے قابل ِ احترام بزرگ دھکے کھا رہے ہیں۔ دس بارہ برس کے بچوں سے ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ گالیاں سننے پر مجبور ہیں۔ ہمارا مذہب ہمیں کیا سکھاتا ہے؟ ہمارے دین کے بزرگوں کے احترام کے کیا دروس ہیں؟ غربت بچوں کو تعلیم سے دور کرتی ہے اور ناخواندگی ایسی حالات پیدا کرتی ہے جن سے ہم آج دوچار ہیں۔۔۔۔ میں فیض آباد پہنچ کر گاڑی سے اترا اور ذہنی انتشار کے باعث بلال بھائی کے ساتھ واپس رہائش گاہ پر آ گیا۔۔۔ کیا فائدہ ایسی تفریح کا کہ ہم موسم اور قدرت کے حسن و جمال سے لطف اندوز ہو رہے ہوں اور ہمارے بزرگ بچوں سے گالیاں سن رہے ہوں۔
Pakistan
آئیں آج سے یہ عہد کریں کہ اپنے طور پر پاکستان کی تکمیل کا آغاز کریں۔ اپنے چھوٹے بھائیوں میں شعور اجاگر کریں۔ اپنے بزرگوں کو انکا مقام دیں۔اس دھرتی کی مٹی سے محبت کریں۔ اور سب سے بڑھ کر غربت کی وجہ سے تعلیم سے محروم بچوں کو پڑھائیں۔ ایسے بچوں کا ہاتھ پکڑیں اور پرنسل آفس میں جا کر بتائیں کہ سر یہ میرا اسلام اور ملک و ملت کی رو سے بھائی ہے۔ اس کا روشن مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ غربت کی وجہ سے اگر یہ نہ پڑھ سکا تو کل یہ غنڈوں کے ٹولوں میں جائے گا۔ پاکستان میں چور اچکے بڑھ جائیں گے۔ اور اگر آپ نے نظر ِ کرم کی تو یہ کل کا ڈاکٹر ہو سکتا ہے جو مستحق افراد کا مفت علاج کرے۔۔۔