اگر میں شہروں کی نفسا نفسی سے دور کسی ایسے دیہات کے کچے مکان میں رہائش پذیر ہوتی جہاں جدید ترین ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہ ہوتی اور اگر ”انگوٹھا چھاپ” ہونے کی وجہ سے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میری پہنچ سے دور۔۔۔ بہت دور ہوتے تو میں کتنی خوش نصیب ہوتی کہ نہ کسی کربناک خبر سے واسطہ اور نہ جانکاہ حادثے سے تعلق۔ پھر عالم کچھ یوں ہوتا کہ منصورِ حقیقت کو سرِ دار نہ دیکھا اچھّا ہے کہ آج کا اخبار نہ دیکھا
لیکن یہ سب کچھ تو ایک ”اگر” میں مضمر ہے اور وہ ”اگر ” میرے پاس نہیں مگر پھر بھی میں نے ہمیشہ یہی کوشش کی کہ اپنے کالموں میں جہاں تک ممکن ہو سکے اپنے جیسے عامیوں کے چہروں پر جمی مایوسی کی دبیز تہوں میں دراڑ ڈال کر اُن کے لبوں پر ہلکی سی مسکان لا سکوں۔ میں عامی ہوں اور عوامی دُکھ سے خوب آشنا ، اِس لیے مجھے بھی ”خواص” سے اتنی ہی ”چِڑ ”ہے جتنی کسی عام پاکستانی کو ہوتی یا ہو سکتی ہے۔ اسی لیے میں قصداََ اپنی تحریروں کو مزاحیہ رنگ دیتے ہوئے ہر گز یہ دھیان میں نہیں رکھتی کہ ایسی تحریروں سے اشرافیہ کے پیٹ میں کتنے ”مروڑ ” اُٹھتے ہیں اور صاحبانِ جاہ و حشمت کتنے ”اوازار” ہوتے ہیں لیکن حالات کے جبر نے مجھے بھی قنوطیت کا شکارکر دیا ہے اورمیں اکثر مایوسیوں کی ”بُکل” مارے یہ سوچتی رہتی ہوں کہ اشرافیہ کے نقار خانے میں بھلااِس ” توُتی” کی آواز کون سنتا ہے اور کیا حاصل ایسے کالموں سے جو کسی کی آنکھ کا ایک آنسو بھی پینے کی سَکت نہ رکھتے ہوں۔ اختر شیرانی نے کہا اے عشق کہیں لے چل اِس پاپ کی بستی سے نفرت گہہ عالم سے، لعنت گہہ ہستی سے اِن نفس پرستوں سے، اِس نفس پرستی سے دور اور کہیں لے چل اے عشق کہیں لے چل
کچھ ایسا ہی عالمِ یاس آجکل مجھ پر بھی طاری ہے اور کچھ لکھنے، پڑھنے یا کرنے کو مَن نہیں کرتا لیکن مجبوری یہ ہے کہ لکھے بِنا دل کی بھڑاس بھی نہیں نکلتی۔ بس یہی سمجھ لیں کہ آج قلم سنبھالاہی دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لیے ہے۔ اکثر جی چاہتا ہے کہ نیوز چینلز دیکھوں نہ اخبارات میں سَر کھپاؤں کہ اُن میں سوائے دل جَلانے والی خبروں کے اور ہوتا ہی کیا ہے۔
ہر طرف ابلیسیت کا راج اور وحشت و بَربریت ہر گھر میں نوحہ خوانی، ہر دَر پہ صفِ ماتم اور ذمہ داران کو نشانِ عبرت بنانے کی بجائے مذاکرات کے لیے منت سماجت۔ تلخ حقیقت تو یہی ہے کہ ڈرون حملوں کا تو اڑھائی تین ہزار ایسے افراد نشانہ بنے جن کی غالب اکثریت ”در اندازوں” پر مشتمل تھی اور جو حکومتِ پاکستان کی رِٹ کو چیلنج کیے بیٹھے تھے لیکن طالبان کی وحشت و بربریت تولگ بھگ پچاس ہزاربے گناہوں کا خون پی گئی اور تا حال پی رہی ہے۔
وہ سینہ تان کے خود کُش حملوں اور بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں اور ہم مذاکرات کا کشکول تھامے کبھی ایک تو کبھی دوسرے ”مُلّا” کے دَرکے سوالی بنے نظر آتے ہیں۔ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار احمد کہتے ہیں کہ ”مولوی فضل اللہ مذاکرات کے لیے تیار ہے نہ شاہد اللہ شاہد طالبان سے مذاکرات مشکل اور ملٹری آپریشن سے طاقت مسلط کرنا بھی مشکل ہے۔ بجا ارشاد لیکن اگر وحشی فضل اللہ اور اُس کے ساتھیوں کے خلاف آپریشن نہیں کیا جا سکتا تو پھروہ جگہ بتا دی جائے جہاں یہ قوم ہجرت کر جائے کیونکہ دینِ مبیں کا یہی حکم ہے کہ جہاں رہنا دشوار ہو جائے وہاں سے ہجرت کر جاؤ۔ ویسے تو چوہدری نثار احمد سمیت اشرافیہ اور حاکمانِ وقت کے بچے پہلے ہی بیرونی ممالک میں مزے لُوٹ رہے ہیں۔
البتہ ہم مجبوروں اور مقہوروں کو تو دُنیا کا کوئی ملک بھی ہر گز قبول کرنے کو تیار نہیں اِس لیے ہم نے یہیں رہنا ہے اورہمارا جینا مرنا اِسی دھرتی سے وابستہ ہے۔ اب اگرہمارے حکمران اتنے ہی بے کس، بے بَس اور کمزور ہیں کہ مُٹھی بھر طالبان کا مقابلہ کرنے کی سَکت بھی نہیں رکھتے توپھر وہ وقت دور نہیں جب پوری قوم اپنی حفاظت کا عزم باندھ کر طالبان کے شکار کے لیے نکل کھڑی ہو گی۔
PTI
سیاسی اُفق پر اُبھرتی ہوئی تحریکِ انصاف کی” سونامی” کی تباہ کاریوں کا یوں تو گلی گلی میں شور ہے لیکن جب طالبان کا نامِ نامی اسمِ گرامی سامنے آتا ہے تو اِسی سونامی کی تُند خو موجیں جوئے نغمہ خواں میں ڈھل جاتی ہیں۔ تحریکِ انصاف نے ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نیٹو سپلائی روک کر اچھا کیا، بہت اچھا کیا، سوال مگر یہ ہے کہ پچاس ہزاربے گناہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کے قاتل طالبان کے ساتھ اتنی اُلفت و محبت کیوں؟۔
خیبر پختونخواہ کے جرّی اور دلیر سپوت نویں جماعت کے طالب علم اعتزاز حسن نے اپنی جان پر کھیل کر سکول کے سینکڑوں بچوں کی جان بچا لی۔ 6 جنوری کی صبح کو ہنگو کے علاقے ابراہیم زئی کے سکول کی طرف پُر اسرار انداز میں بڑھتے ہوئے قدموں کو اُس پندرہ سالہ مجاہد نے روک کر یہ ثابت کر دیا کہ اِس قوم میں خونِ گرم کی لہریں ابھی تازہ دَم ہیں اور آج بھی وطنِ عزیز کی غیرت مند ماؤں کی گود میں ایسے مایہ ناز سپوت پلتے ہیں جو خون آشام درندوں کے ناپاک وجود کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی جرأت ہمت بھی رکھتے ہیں اور حوصلہ بھی لیکن عشقِ طالبان سے سرشار تحریکِ انصاف کے حکمرانوں کوتواتنی توفیق بھی نصیب نہ ہوئی کہ وہ شہید کے خاندان سے ہمدردی کے دو بول ہی بول دیتے۔
شاید اکابرینِ تحریکِ انصاف کویہ خوف دامن گیر ہو کہ ہمدردی کے یہ دو بول بھی کہیں اُن کے” محبوب” مُلّا فضل اللہ کی طبع نازک پر گراں نہ گزریں۔ اعتزاز حسن شہید کے جنازے میں وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک سمیت کوئی حکومتی عہدے دار یا اہلکار شریک نہ ہوا لیکن جب اعتزازحسن کی لحد پر چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کی طرف سے پھولوں کی چادر چڑھائی گئی اور جنابِ وزیرِ اعظم کے تمغۂ شجاعت کے اعلان کے علاوہ بین الاقوامی میڈیا نے بھی اِس واقعے کی بھرپور کوریج کی تو محترم عمران خاں صاحب کی غیرت بھی انگڑائی لے کر جاگ اُٹھی اور اُنہوں نے بھی بیان داغ دیا کہ اعتزاز قوم کا ہیرو ہے اور شہید اعتزاز حسن کے معاملے پر وزیرِ اعلیٰ اور خیبر پختونخواہ حکومت کے رویے نے انتہائی مایوس کیا ہے۔ محترم حسن نثار صاحب فرماتے ہیں ” خیبر پختونخواہ حکومت کی کارکردگی پر اظہارِ مایوسی عمران خاں کی بہادری بھی ہے اور اعلیٰ ظرفی بھی۔
یقیناََ یہ بہادری اور اعلیٰ ظرفی ہی قرار دی جاتی اگر محترم خاں صاحب اپنے دُکھ کابَر وقت اظہار کر دیتے لیکن وزیرِ اعظم جناب نواز شریف کے تمغۂ شجاعت کے اعلان سے بہت دیر بعد محترم خاں صاحب کا یہ اظہارِ افسوس اپنی سیاسی ساکھ بچانے کا محض ایک حربہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ خاں صاحب نے شہید اعتزاز حسن کے خاندان کی کفالت کا اعلان کرکے بہت مستحسن قدم اُٹھایا ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا جس باپ نے اپنے ہاتھوں سے اپنے جوان شہید کو قبر میں اتارا ہے کیا وہ زندگی کے کسی موڑ پر بھی طالبان کے حق میں کلمۂ خیر ادا کر سکے گا ؟۔اگر نہیں تو پھر اعتزاز شہید کا والد ایسے کفیل کا احترام کیسے کر سکے گا جس کے ہاں طالبان کے لیے خیر ہی خیر ہو۔ محترم عمران خاں صاحب اب اِس قوم کے مسلمہ رہنما ہیں اِس لیے اب اُنہیں ضد اور ہٹ دھرمی کی بجائے طالبان کے بارے میں اپنی اداؤں پر نئے سرے سے غور کرنا ہو گا۔