تحریر : مجید احمد جائی قیامت کی نشانیوں میں ایک نشانی یہ بھی ہے کہ لوگ جھوٹ کثرت سے بولیں گے، قدرتی آفات کی بہتات ہو جائے گی۔ جائزہ لیا جائے تو آج پل پل قیامت ہی تو ہے۔ لوگ کثرت سے جھوٹ بولے جاتے ہیں اور سچ گردانتے ہیں۔ بے پردگی عروج پکڑ چکی ہے۔ زنا کاری عام ہو گئی ہے۔ قتل، خون ریزی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ قدرتی آفات کہر بن کر ٹوٹ رہی ہیں۔
خاص کر پاکستان قدرتی آفات کی لپیٹ میں ہے۔ پانی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہترین نعمت ہے۔ زندگی کا دارومدار پانی پر منحصر ہے۔ انسانی جان کو زندہ رکھنے کے لئے پانی ضروری عنصر ہے۔ پانی رب تعالیٰ کی طرف سے باعث رحمت ہے۔ لیکن یہی پانی رحمت کی بجائے زحمت بھی بن جاتا ہے۔ ایک وقت تھا تھر پانی کے لئے ترس رہا تھا۔ خشک سالی سے لوگ مر رہے تھے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے بارشوں کی دعائیں کرنے لگے تھے۔ لیکن کہتے ہیں بارش رحمت بھی ہوتی ہے اور زحمت بھی۔ اب کی بارشیں پاکستان کے لئے عذاب بن کر برسی۔ یہ اللہ تعالیٰ سے عذاب ہی تو ہے، پانی بے قابو ہو رہا ہے۔ دریائوں سے پانی نکل کر سینکڑوں دیہاتوں کو صفحہ ہستی سے مٹا گیا ہے۔
ایک طرف سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے تو دوسری طرف دھرنے والوں نے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ، گالیاں اُف توبہ، اتنے الزامات ، گالیاں تو کسی غیر مذہب نے بھی نہیں دی ہو گی، جتنی ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو دے رہا ہے۔ مقدمات کا عالمی ریکارڈ بنایا جا رہا ہے۔ ہنگامہ آرائی، تصادم، لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ ڈیہاڑی دار روٹی کو ترس رہے ہیں اور عمران خان اور مولانا الطاہر القادری اسلام آباد میں نائٹ شو پیش کر رہے ہیں۔ ڈانس گانے، میوزک بج رہے ہیں۔ بے پردگی عروج پر ہے۔ اب تو ان کو مذہب ،شریعت نظر نہیں آتی۔سول نافرمانی کی تحریک چلائی جارہی ہے۔ کرنسی پر گو نواز گو لگوایا جا رہا ہے۔ کوئی روکنے والا نہیں، اپنی من مانی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اب عمران خان اور قادری صاحب کے پاس پیشہ کہاں سے آ گیا ہے جو ڈیہاڑی دار لے رکھے ہیں۔ مفلسی،مہنگائی کے اس دور میں کون ایسا ہے جو ایک ماہ اپنے خاندان کو بھوکا پیاسا سڑکوں پر بٹھائے رکھے گا۔ آج ایک دن فارغ رہنے سے فاقہ کشی کی نوبت آجاتی ہے۔
Pakistan Flood
دھرنے میں جانے والی عورتوں کو طلاقیں مل رہی ہیں تو نوجوان لڑکیاں والدین کی عزت کا جنازہ نکال کر راہ فرار اختیار کر رہی ہیں۔ سیاسی اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا۔ انا، ضد کی جنگ جاری ہے۔ مفاد پرستی کا عالم ہے۔ کیا یہی انقلاب ہے یہی آزادی دلانا چاہتے ہیں جدید سیاستدان۔پاکستان کو اربو ں نقصان ہو چکا ہے اور انقلاب،آزادی مارچ ، دھرنے ختم ہونے کا نام نہیں رہے ایک طرف دھرنوں نے ناک میں دم کر رکھا تو دوسری طرف وی آئی پی کلچر نے غریب عوام کا جینا محال کر رکھا ہے۔ وی آئی پی لوگوں کے لئے گھنٹوں جہاز انتظار کرتا ہے۔ سیلاب زدگان کی امداد کے لئے جانے کے لئے سیکورٹی کے نام پر کاروں کا قارون ہمراہ لیا جاتا ہے۔ راستے میں آنے والوں کی ہڈیاں، پسلیاں توڑ دی جاتیں ہیں۔ کیسا نظام ہے۔کیسے حکمران ہیں۔
جس طرح پانی تمام حدیں توڑ کر اپنی مانی کر رہا ہے۔ پاکستانی عوام کب تک صبر کرے گی۔ اس غریب، مہنگائی میں پسی عوام کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔ یہی غریب کمی کمین وی آئی پی پر دھاوا نہیں بولے گے تو کیا پھولوں کی مالا پہنائیں گے۔ رحمان ملک اور ڈاکٹر رامیش کمار کے ساتھ جو ہوا سب جانتے ہیں۔ جمشید دستی کے ووٹروں نے ان کی گاڑی کے ساتھ کیا سلوک کیا۔سیاستدانوں کو اپنے نظرایات تبدیل کرنے ہوں گے۔ اب عوام پہلی جیسی نہیں۔غریب عوام میں شعور آ گیا ہے۔ اپنا حق چھین کر حاصل کرنا سیکھ لیا ہے۔ آخر کب تک وی آئی پی کلچر کا خمیازہ کمی کمین غریب عوام بھگتے گی۔
میں ابھی اکتوبر میں زلزلے کی تباہ کاریاں نہیں بھول پایا۔ کس طرح اونچے اونچے خوبصورت مکان زمین بوس ہو گئے۔ کتنی جانیں زمین میں دب گئی۔2010ء کے سیلاب نے کتنے دیہات صفحہ ہستی سے مٹا دئیے تھے۔ ہماری حکومتیں نجانے کب عبرت پکڑیں گے۔ چاہیے تو یہ تھا جس طرح 2010ء میں سیلاب نے تباہی مچائی تھی۔ حکومیتں اس کا سدباب کرتیں، حکمت عملی سے کا م کرتی۔ لیکن پاکستانی حکومتیں مسلسل ناکام ٹھہری ہیں۔ نہ کوئی ڈیم بنایا۔ نہ کوئی ایسے منصوبے پر پیش رفت ہوئی۔ اگر ہر آنے والی حکومت اپنے دور حکومت میں ایک بھی ڈیم بناتی تو آج پاکستان تباہی سے بچ سکتا تھا۔
Flood
ایک دفعہ پھر پانی بے قابو ہو گیا ہے۔ آزاد کشمیر سے شروع ہونے والا پانی کا ریلا طوفانی شکل میں صوبہ پنجاب کے سینکڑوں دیہاتوں کو صفحہ ہستی سے مٹا کر سند ھ میں تباہی مچا رہا ہے۔ سیاسیدان تماشائی بنے تماشا دیکھ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھنچنے سے فرصت ملے تو عوام کا سوچیں۔ غریب کسان لہلہاتی فصلوں سے گئے۔ جن کے مکان زمین بوس ہو گئے،جن کے جانور پانی میں بہہ گئے۔ کئی انسانی جانیں پانی نگل گیا۔ کسی کو کفن نصیب نہیں ہوا تو کسی کو دو گز زمین کا ٹکڑا۔ کسی کا سہاگ اجڑ گیا، تو کسی کے سار سے سایہ شفقت اٹھ گیا۔ کوئی یتیم ہوا تو کوئی بیوہ۔ سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ امدادی کرنے والے نجانے کہاں ہیں۔ ایک ایک منظر خوف ناک ہے۔ میرے ملتان میں نئی نویلی دلہن کا سہاگ پانی نے چھین لیا۔ کسی سیاستدان ،کسی حکمران نے اس اجڑی ،دلہن کے سر پر ہاتھ نہیں رکھا۔ کوئی اس کے غم میں شریک نہیں ہوا۔ امیرزادوں کے کتے کو زکام ہو جائے تو بیرون ملک علاج ہوتے ہیں۔ ان غریبوں پر پانی قہر بن کر ٹوٹا ہے۔ کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔
یہی سیلاب، یہی بارشیں بھارت میں تو آتا ہے۔ وہاں صفحہ ہستی سے کیوں نہیں مٹتے۔ وہاں نقصانات کیوں نہیں ہوتے۔ کیونکہ انہوں نے سبق سیکھ لیا ہے۔ انہوں نے ڈیم بنا لئے ہیں۔ ہماری حکومتوں کی نا اہلی ہے کہ صرف کاغذی کاروائی کرتے ہیں۔ عملی نہیں۔ حکومتیں اگر ڈیم بنانے میں سنجیدگی سے عمل پیرا ہوتیں تو کسی بھی مشعل کا دولہا منہ زور پانی کے نذر نہ ہوتا۔ میں پوچھتا ہوںکیا آزادی مارچ،انقلاب مارچ والے،حکومتی عہدیدارن،جمہوریت کے نعرے لگوانے والے اجڑی دلہن مشعل کا سرتاج واپس لادیں گے۔ جن کا سب کچھ پانی بہا کر لے گیا۔ مشعل کے خاموش لب آج بھی کہہ رہے ہیں کہ میرا گھر لا دو۔ میرا سر تاج لا دو۔ میرا پھولوں سے سجا گلشن لادو۔ مشعل کی سوالیہ نظریں،جواب کی منتظر ہیں۔ ہمارے نااہل سیاستدان جواب دیں گے۔ یا پھر۔۔۔؟عوام ہی پانی کی طرح اپنا راستہ خود بنا لے گی۔