ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ ایک ہی گلی محلے میں کھیل کود کر شرارتیں کرتے ہنستے روتے ،ساتھ بڑے ہونے والے بچے سب کے سب الگ الگ سوچ اور صلاحیتیں لیکر بڑے ہوتے ہیں۔ اس مین کچھ تو مالی حالات کا اثر ہوتا ہے۔ اور کچھ میں انکے گھریلو سوچ اور ذہنیت بہت اثر انداز نظر آتی ہے۔ کوئی بچہ تمام تر مالی وسائل اور سہولتیں ہوتے ہوئے بھی کوئی خاطر خواہ تعلیمی قابلیت نہیں دکھا سکتا تو کچھ بچے ہر طرح کے حالات کا سامنا کرتے ہوئے بھی ذندگی کے شدید تھپیڑوں میں بھی اپنا قد اور مقام وہاں تک لیجاتے ہیں کہ جہاں نہ چاہتے ہوئے بھی انکے مخالفوں کو بھی ان کی جانب دیکھنے کے لیئے سر اٹھانا ہی پڑتا ہے ۔ ایک ہی گلے محلے کے بچے جن میں کوئی ایم اے ، ایم بی اے اور پی ایچ ڈی کرتا ہے۔
تو کوئی اسمبلی میں قوم کی قسمت کے فیصلے کرنے لگتا ہے ۔ اور کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اسی گلی کی نکڑ پر ریڑھی لگاتا ہے ،تو کوئی اسی گلی کے ہوٹل میں میز صاف کرتا ہے اور کل کے ہمجولیوں کو چائے پیش کرتا ہے کوئی موٹر سائیکل کی مرمت کرتا نظر ہے ۔ تو کوئی میجر صاحب بن کر ملک قوم کی حفاظت کا بیڑا اٹھا تا ہے ۔
کتنی عجیب بات ہے ایک ہی زمین ، ایک سی خوراک ، ایک سی آب وہوا ، لیکن نتیجہ کسقدر مختلف ۔ اسے پرورش کا فرق کہیں ، اس بچے کا نصیب کہیں یا خدا کی شان ، سب سچ ہے ۔ لیکن سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ رب العالمین جس سے جو کام کروانا چاہے کروا ہی لیتا ہے ۔ چیونٹی سے ہاتھی کومروانا بھی یہ ہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ اللہ اپنے سوا کسی کی بھی بڑائی پسند نہیں کرتا ۔ لیکن انسان کے جھکنے اور عاجز ہو جانے سے کسقدر محبت رکھتا ہے ۔ کہ اسے ان سب کے عوض کس کس بلندی پر پہنچا دیتا ہے۔
کہ وہ انسان خوداپنی اونچائی پر حیران کھڑادیکھتا رہ جاتا ہے ۔ بے عقل اور کم ذات اپنے مراتب کے بعد اپنے انداز و اعمال سے اپنے بدذات اور متکبر ہونے کا اعلان کرتا گردن اکڑاتا فرعون بنتا نظر آتا ہے ۔ تو عقل وشعور والا ، بانصیب عاجز ہو کر اپنی گردن مالک کے حضور زمین سے جوڑتا اور شکر کے الفاظ اور انداز ڈھونڈتا نظر آتا ہے ۔
بچپن کے یہ ساتھی جن میں کچھ تو آگے نکل جانے والوں سے بے انتہاء محبت اور فخر ظاہر کرتے ہیں ۔لیکن ان میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہوتی ہے جو انہیں ان کی ماضی کی محرومیوں کے آئینے میں چھوٹا دکھانے کی کوشش میں دن رات جتے رہتے ہیں ۔ ہم تو اسے حسد ہی کہیں گے ۔ ان کی کم ظرفی کی پہلی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ انہیں بھری محفل میں ان کے کسی بچپن کے کسی نام یا عرفیت ( جسے ہم چھیڑ بھی کہہ سکتے ہیں )سے پکار کر اسے شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو کبھی چُن چُن کر انکی ایسی شرارتیں یا باتیں لوگوں کی موجودگی میں سنانے لگیں گے جن سے انکی محفل میں سُبکی ہو ۔
Reputation
جسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسی مرتبے پر پہنچنے کے بعد چاہتے ہوئے بھی یہ لوگ اپنے بچپن کے ساتھیوں سے ملنے سے کترانے لگتے ہیں ۔ کیوں کہ ہر انسان وہیں کسی سے ملنے کی خواہش کریگا جہاں اسے اپنی عزت محسوس ہو ۔ بلکہ اکثر ان لوگوں کو گیٹ پر سے ”صاحب گھر پر نہیں ہیں” کہہ کر بھی ٹرخا دیا جاتا ہے۔ کیوں کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کسی محفل میں یا ٹی وی پر اپنے کسی بچپن کا ساتھی نظر آئے تو بڑی نخوت سے ناکام دوست ساتھ بیٹھے کو یہ جملہ ضرور کہے گا کہ ” ارے یہ تو فلاں فلاں کا بیٹا ہے میرا لنگوٹیا یار تھا اسے تو میں کبھی منہ بھی نہیں لگاتا تھا
اسکے پاس تو فیس کے پیسے نہیں ہوتے تھے ،یا اس کے توجوتے بھی پھٹے ہوئے ہوتے تھے وغیرہ وغیرہ آج پتہ نہیں کیا سمجھتا ہے ”۔ کہہ کر خود کو اونچا کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں لیکن یہ کہتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں تو خدا نے اس کی پہنچ سے بھی دور کر دیا اور خود انکے حِصّے میں کیا آیا لنگوٹئے یار کے نام پر چند بوگس جملے ،اور کلیجے سے نکلتی ٹھنڈی آہ