کراچی (جیوڈیسک) اسٹیٹ بینک آئندہ 2 ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی کا اعلان ہفتہ کو کرے گا، زرمبادلہ کے ذخائر میں استحکام، افراط زر میں نمایاں کمی اور ریئل انٹرسٹ ریٹ میں اضافہ ہونے سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے لیے بنیادی شرح سود 50 بیسس پوائنٹس کم کرنے کی گنجائش موجود ہے جس کے بعد بنیادی شرح سود 10 فیصد کی سطح سے کم ہوکر 9.5 فیصد رہ جائے گا۔
اکتوبر میں افراط زر کی شرح 5.82 فیصد رہی جو 17 ماہ کی کم ترین سطح قرار پائی، اسی طرح اکتوبر میں ریئل انٹرسٹ ریٹ بھی (ڈسکاؤنٹ ریٹ مائنس انفلیشن) 2.32 فیصد سے بڑھ کر 4.18 فیصد تک پہنچ گیا، گزشتہ 6ماہ کے دوران ریئل انٹرسٹ ریٹ اوسط 2.50 فیصد رہی جبکہ گزشتہ 3 سال کے دوران ریئل انٹرسٹ ریٹ اوسط 1.78 فیصد ریکارڈ کی گئی۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے سبب افراط زر میں مزید کمی کا امکان ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے اثرات نمایاں ہونے سے نومبر میں افراط زر کی شرح 5 فیصد رہنے کی توقع کی جارہی ہے، اس طرح اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے پاس سخت مانیٹری پالیسی برقرار رکھنے کے لیے مستقبل میں افراط زر کے دباؤ کا جواز بھی نہیں رہا، حکومت کو درپیش سیاسی چیلنجز اور معیشت پر حکومت مخالف تحریک کے اثرات بھی کافی حد تک کم ہوچکے ہیں۔
آئی ایم ایف نے بھی حکومت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے قرضوں کی چوتھی اور پانچویں قسط کی منظوری دے دی ہے جس کے نتیجے میں دسمبر 2014 تک 1.1 ارب ڈالر کی آمد متوقع، معاشی اشاریے بہتر ہونے اور حکومت کے اصلاحی پروگرام آگے بڑھنے کی صورت میں پالیسی ڈسکاؤنٹ ریٹ برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی قسم کے بیرونی دباؤ کا امکان بھی ختم ہوچکا ہے۔
آئی ایم ایف کی اقساط اور حکومت کے سکوک بانڈز کی نیلامی زرمبادلہ کے ذخائر کو مزید مستحکم کرے گی جس سے روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے میں مدد ملے گی، اس طرح روپے کی قدر کے لحاظ سے بھی اسٹیٹ بینک کو مستقبل کے مثبت اشارے ملے ہیں۔ دوسری جانب مانیٹری اینڈ فسکل پالیسی کوآرڈینیشن بورڈ نے حکومت کو سخت فسکل اور مانیٹری پالیسی برقرار رکھنے کی ایڈوائس دی ہے، اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز اور فسکل پالیسی کوآرڈینیشن بورڈ کے رجحانات میں ہم آہنگی کی صورت میں زری پالیسی برقرار رکھی جا سکتی ہے۔