امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدارتی انتخابات کے حتمی نتائج تاخیر کا شکار ہیں، جس کی ایک بڑی وجہ ’اَرلی ووٹنگ‘ کو قرار دیا جا رہا ہے۔ لیکن سوال ہے کہ اگر کوئی امیدوار حتمی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہو گیا تو صدر کا انتخاب کیسے ہو گا؟
امریکا میں عمومی طور پر صدارتی الیکشن مکمل ہونے کے بعد تین نومبر کی رات کو ہی نتائج سامنے آ جاتے ہیں۔ ہارنے والا امیدوار اپنی شکست تسلیم کرتا ہے اور جیتنے والا اپنی جیت کا اعلان۔
تاہم اس مرتبہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے امریکا میں ‘ارلی ووٹنگ‘ یعنی ڈاک کے ذریعے اور براہ راست ووٹنگ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا۔ یوں الیکشن ڈے سے قبل ہی تقریبا دس ملین ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کر لیا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ کے الیکشن میں ٹرن آوٹ زیادہ ہو گا۔ تاہم ساتھ ہی اس ‘ارلی ووٹنگ‘ کی وجہ سے حتمی نتائج میں تاخیر بھی ہو گئی ہے۔ جس کہ وجہ ان ووٹوں کی گنتی کے عمل کو قرار دیا جا رہا ہے۔
ابھی تک واضح نہیں ہو سکا ہے کہ اس مرتبہ ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اس انتخابی عمل میں کامیاب قرار پائیں گے یا ڈیموکریٹ جو بائیڈن 46 ویں امریکی صدر منتخب ہوں گے۔ جیسے جیسے نتائج میں تاخیر ہو رہی ہے اور کانٹے دار مقابلہ جاری ہے، ویسے ویسے یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ اگر کوئی امیدوار مطلوبہ دو سو ستر الیکٹورل ووٹس حاصل کرنے میں ناکام رہا تو صدر کے انتخاب کا طریقہ کار کیا ہو گا۔
امریکی آئین کے مطابق اگر صدارتی الیکشن کے حتمی نتائج کے مطابق کوئی امیدوار بھی مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے تو صدر کا انتخاب نئے منتخب ہونے والی ایوان نمائندگان کرے گی۔ اس صورت میں نئے چنے گئے 438 قانون سازوں کو چھ جنوری سے قبل یہ عمل مکمل کرنا ہو گا۔
یاد رہے کہ امریکا میں آخری بار ایسا سیاسی بحران انیسویں صدی میں رونما ہوا تھا، جب کوئی امیدوار بھی مطلوبہ الیکٹورل ووٹس حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پایا تھا اور ایوان نمائندگان کی ووٹنگ سے صدر کا انتخاب کیا گیا تھا۔