معروف و مقبول گلوکار کے. ایل. سہگل کا جب انتقال ہوا تو ان کے جنازے کے ساتھ ایک نغمہ فضا کو سوگوار بنا رہا تھا۔ نغمہ تھا ‘جب دل ہی ٹوٹ گیا…۔’ اس نغمہ کی تفصیلات بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کیونکہ موسیقی سے تھوڑی بھی دلچسپی رکھنے والا شخص اس سے آشنا ہے۔ یہ مرحوم اے. کے. سہگل کی آواز میں گایا گیا مشہور زمانہ نغمہ ہے لیکن اس شہرۂ آفاق نغمہ کو صفحہ قرطاس پر اتارنے کا شرف جس اعلیٰ مرتبت شخصیت کو حاصل ہے اس کا نام مجروح سلطان پوری ہے۔ ادب میں اپنی شعری صلاحیتوں اور فلمی دنیا میں اپنی نغمہ نگاری کی وجہ سے علیحدہ شناخت قائم کرنے والے مجروح سلطان پوری بھی آج ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ 24 مئی 2000 میں مجروح سلطان پوری کے نام کے ساتھ ‘مرحوم’ لفظ جڑ گیا اور آج ہم ان کی 14ویں یومِ وفات منا رہے ہیں۔
مجروح سلطان پوری کی پیدائش یکم اکتوبر 1919 کو ہوئی۔ جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے ان کی پیدائش سلطان پور میں ہوئی جو کہ اتر پردیش میں واقع ہے۔ لیکن ان کا اصل نام مجروح سلطان پوری نہیں، اسرارالحسن خان تھا۔ شعر و شاعری اور فلموں میں نغمہ نگاری کے دوران انھوں نے اپنا تخلص مجروح رکھا اور پھر مجروح سلطان پوری کے نام سے ہی معروف ہو گئے۔ دراصل انھیں شاعری کا شوق طالب علمی کے زمانے سے ہی تھا لیکن طب یونانی کی تعلیم کے دوران وہ اس طرف زیادہ توجہ نہیں دے سکے۔ مجروح کے والد سراج الحق خان، جو کہ سب انسپکٹر تھے، انھیں اعلیٰ تعلیم دینا چاہتے تھے اسی لیے انھوں نے ساتویں جماعت مکمل کرنے کے بعد عربی و فارسی کی تعلیم کے لیے سات سالہ کورس میں داخلہ کرا دیا۔ مجروح نے درس نظامی کا کورس مکمل کیا پھر عالم بن گئے۔ بعد ازاں لکھنؤ کے تکمیل الطب کالج سے یونانی طریقہ علاج کی تعلیم حاصل کی۔ وہ حکیم تو بن گئے اور لوگوں میں ان کی حکمت کی خبر بھی پھیلنی شروع ہو گئی، لیکن بچپن سے ہی ان کے اندر شعر و شاعری کا جو طوفان ہلوریں مار رہا تھا، اس میں اچانک اضافہ ہو گیا۔
ایسے وقت میں جگر مراد آبادی سے ملاقات اور ان کی صحبت نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا۔ کم عمری سے ہی مشاعروں میں شرکت کرنے کے عادی مجروح اب بیرون ریاست مشاعروں میں بھی شرکت کرنے لگے تھے۔
Majrooh Sultanpuri
1945ء کی بات ہے جب مجروح نے ممبئی کے ایک مشاعرے میں شرکت کی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب ان کی شاعری ادبی حلقوں میں اپنا پرچم لہرا رہی تھی۔ ممبئی کا اس مشاعرے نے مجروح کی زندگی کا رخ ہی موڑ دیا۔ مذکورہ مشاعرے میں فلم انڈسٹری کے مشہور پروڈیوسر اے آر کاردار بھی شریک تھے جنھیں ان کی شاعری نے اپنا دلدادہ بنا لیا۔ کاردار نے فوراً مجروح کے پاس نغمہ نگاری کی پیش کش کی۔ حالانکہ اس وقت انھوں نے منع کر دیا لیکن جب جگر مراد آبادی نے مجروح کو سمجھایا تو وہ راضی ہو گئے۔ پھر کاردار نے موسیقار نوشاد سے مجروح کی ملاقات کرائی۔ یہ وہ موقع تھا جب دو بڑی شخصیتوں کا ‘ملن’ ہو رہا تھا۔ نوشاد نے فوراً ایک ساز (دھن) پیش کیا اور نغمہ لکھنے کی فرمائش کی۔ گویا مجروح کا پہلا فلمی نغمہ منظر وجود پر آیا۔ وہ نغمہ تھا:
جب اس نے گیسو بکھرائے بادل آیا جھوم کے مست امنگیں لہرائی ہے رنگیں مکھڑا چوم کے
نوشاد کو یہ نغمہ بہت پسند آیا اور انھوں نے فلم ‘تاج محل’ میں نغمہ نگاری کی ذمہ داری مجروح کے سپرد کر دی۔ اس فلم کے نغموں کی پسندیدگی کا یہ عالم تھا کہ سبھی کی زبان پر صرف مجروح کا ہی نام تھا۔ اس کے بعد ان کے پاس نغمہ نگاری کے لیے کئی پیش کش آئے اور یہی موقع تھا جب وہ بالی ووڈ کے ہو کر رہ گئے۔ حالانکہ ایسا کہنا درست نہیں ہوگا کہ انھوں نے فلموں میں نغمہ نگاری کی اور ادب سے کنارہ کش ہو گئے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں کم و بیش 70 غزلیں لکھی ہیں جب کہ فلمی نغموں کی تعداد تقریباً 4000 ہے۔ ماہرین ادب کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ مجروح ادبی شاعری پر توجہ دینے کے بجائے فلمی دنیا کی نذر ہو گئے۔ لیکن شاعر اشعر ہاشم کا نظریہ کچھ مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”مجروح نے فلموں کے لیے صرف شوقیہ لکھا ہے اور ان کی پہلی محبت غزل تھی۔ انھوں نے فلمی نغموں میں بھی اردو ادب کی تاثیر کو برقرار رکنے کی طرف پوری توجہ دی تھی۔
بلاشبہ مجروح سلطان پوری کے فلمی نغموں میں ہمیں خیالات کی نازکی کے ساتھ ساتھ زندگی کے تجربات جس انداز میں پیش پیش نظر آتے ہیں وہ ان کی ادب پروری کا ہی نتیجہ ہے۔ نغموں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کسی ایسے تخلیق کار کے قلم سے صفحہ قرطاس پر اترے ہیں جو نہ صرف غزلیہ شاعری کا گہرا ادراک رکھتا ہے بلکہ جس نے تمام رموز و علائم کو اشعار کے قالب میں ڈھال دیا ہے۔ جگر مراد آبادی کے شاگرد اور مشہور شاعر بیکل اتساہی نے مجروح کے بارے میں کیا خوب کہا ہے کہ ”مجروح ایک ایسے شاعر تھے جن کے کلام میں سماج کا درد جھلکتا تھا۔ انھوں نے زندگی کو ایک فلسفی کے نظریے سے دیکھا اور اردو شاعری کو نئی اونچائیاں عطا کیں۔” دراصل مجروح کی نظر سماجی مسائل کے ساتھ زندگی کی کشمکش پر بھی رہتی تھی۔ وہ اپنے قلم کے ذریعہ سماجواد کا پرچم بلند کرنے والے شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ترقی پسند مصنّفین کی تحریک سے وابستہ ہونے کے بعد وہ حکومت مخالف نظم لکھنے کی پاداش میں قید و بند کا شکار بھی ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب ان کی مالی حالت خراب ہو چکی تھی۔ 1949 میں مجروح کی پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے بالی ووڈ کے ‘شو مین’ راج کپور نے ان کی مدد بھی کرنی چاہی تھی لیکن مجروح کی خودداری کے کیا کہنے۔ انھوں نے ان کی پیشکش خارج کر دی۔ پھر راج کپور نے ایک نغمہ لکھنے کی فرمائش کی جس سے مجروح انکار نہیں کر سکے۔ اس موقع پر مجروح نے اپنے درد و الم کو کاغذ پر بکھیرتے ہوئے یہ نغمہ لکھا:
ایک دن بک جائے گا ماٹی کے مول جگ میں رہ جائیں گے پیارے تیرے بول
راج کپور نے اس نغمہ کے لیے انھیں 1000 روپے دیے تھے۔ یہ نغمہ راج کپور نے 1975 میں اپنی فلم ‘دھرم کرم’ میں شامل کیا تھا۔ مجروح نے فلموں میں روایتی انداز کی نغمہ نگاری سے ہمیشہ پرہیز کیا۔ شاعری کے لیے انھوں نے حکیمی کا پیشہ تو ترک کر دیا لیکن انسان کے نبض پر ان کا ہاتھ ہمیشہ رہتا تھا۔ انھوں نے جو کچھ محسوس کیا اسے نغمہ کے پیرایہ میں ڈھال دیا۔ فلمساز و ہدایت کار ناصر حسین کے ساتھ متعدد فلموں میں انھوں نے جس طرح کی نغمہ نگاری کی ہے، وہ اس بات کا ثبوت ہیں۔ ‘پھر وہی دل لایا ہوں’، ‘تیسری منزل’، ‘بہاروں کے سپنے’، ‘کارواں’، ‘خاموشی’ وغیرہ ایسی فلمیں ہیں جن کے کسی ایک نغمہ کو بطور مثال پیش نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس میں موجود سبھی نغمے فلموں کی کامیابی کا ضامن بنی ہیں۔
فلم ‘دوستی’ کے نغمہ ‘چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے’ کے لیے فلم فیئر ایوارڈ حاصل کرنے والے مجروح سلطان پوری کے نام فلمی دنیا کے سب سے بڑے اعزاز ‘دادا صاحب پھالکے ایوارڈ’ حاصل کرنے والا پہلا نغمہ نگار ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ مجروح نے دنیا کو 14 سال قبل الوداع کہہ دیا لیکن آج بھی ان کی نغمہ نگاری کا رنگ بالکل تازہ ہے اور یقینا کبھی پھیکا نہیں پڑے گا۔