تحریر: سید انور محمود تعلیم کے بغیر کوئی بھی قوم اور معاشرہ اپنے مقاصد اور اہداف حاصل نہیں کرسکتا۔ علم یعنی تعلیم انسان میں شعور پیدا کرتا ہے ، لہذا اس کے بار ے میں ہمارے پیارے نبی کریم حضرت محمد (صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا کہ’’علم حاصل کرو چاہئے تمیں چین جانا پڑے‘‘۔ باشعور قوم ہی ایک مثالی معاشرہ قائم کرسکتی ہے اور تعلیم کے بغیر یہ ممکن نہیں۔میدانِ عرفات میں 25 اکتوبر 2012کو مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز آل الشیخ نے مسجد نمرہ میں خطبہ حج دیتے ہوئے تعلیم کی بابت فرمایاتھا کہ ’’مسلمانوں کو چاہئے کہ اگر وہ ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ٹیکنالوجی کی طرف جائیں، مسلمانوں کی بقاء کیلئے ایسا کرنا بہت ضروری ہے‘‘۔ بدقسمتی سےآج پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں تعلیم کا معیار نہایت پست ہے۔ ہمارے اپنے خطے میں واقع دیگر کئی ترقی پذیرممالک مثلاً سری لنکا وغیرہ تعلیمی میدان میں پاکستان سے بہت آگے ہیں۔ یونیسف کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 6 کروڑ سے زائد بچے پرائمری اور دو کروڑ سے زائد بچے سیکنڈری لیول کی تعلیم سے محروم ہیں۔
دو ہزار آٹھ میں سوات میں ملا فضل اللہ کی قیادت میں طالبان دہشتگردوں کا راج تھا اورانہوں نے ٹیلی ویژن، موسیقی اور بچیوں کے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگائی ہوئی تھی، کافی اسکولوں کو مسمار کردیا تھا۔ اس وقت سوات کی تقریباً بارہ سالہ ملالہ یوسف زئی (پیدائش12جولائی، 1997سوات)نے تعلیمی حقوق کے بارے میں آواز اٹھائی جو اس وقت ایک خطرناک کام تھا۔ بارہ سالہ اس بچی نےاپنے والد ضیاء الدین یوسف زئی کے ہمراہ پہلی مرتبہ پشاور پریس کلب سے خطاب کرتے ہوئے طالبان دہشتگردوں کو للکارااور کہا کہ ’’طالبان کی جرات کیسے ہوئی کہ وہ میری تعلیم کے حق کی راہ میں رکاوٹ بنیں‘‘۔2009 کی ابتداء میں بارہ سالہ ملالہ نے “گل مکئی” کے قلمی نام سے بی بی سی کے لئے ایک بلاگ لکھا جس میں اس نے طالبان کی طرف سے وادی پر قبضے کے خلاف لکھا تھا اور اپنی رائے دی تھی کہ علاقے میں لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دی جانی چاہیے۔
نو اکتوبر، 2012 کو ملالہ اسکول جانے کے لئے بس پر سوار ہوئی۔ ایک مسلح شخص نے بس روک کر اس کا نام پوچھا اور اس پر پستول تان کرتین گولیاں چلائیں۔ ایک گولی اس کے ماتھے کے بائیں جانب لگی اورکھوپڑی کی ہڈی کے ساتھ ساتھ کھال کے نیچے سے حرکت کرتی ہوئی اس کے کندھے میں جا گھسی۔ پہلے اس کا علاج پاکستان میں ہوا بعد میں اسے برطانیہ کے شہر برمنگھم کے کوئین الزبتھ ہسپتال بھیج دیا گیا تاکہ اس کی صحت بحال ہو۔ پاکستانی طالبان دہشتگردوں کے ترجمان احسان اللہ احسان نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ملالہ کفر اور بے شرمی کی علامت ہے۔ طالبان نے اپنے اقدام کو قرآن سے درست ثابت کرنے کی کوشش بھی کی کہ اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے بچوں کا قتل بھی جائز ہے۔ لعنت ہے ان دہشتگردوں پرجو اللہ اور قران کا نام لیکر بے گناہ معصوم بچوں، عورتوں اور مردوں کو مارتے ہیں اور پھر بزدلوں کی طرح سے بھاگ جاتے ہیں، یہ مسلمان تو ہرگز نہیں البتہ یہ درندئے ضرور ہیں۔
اقوام متحدہ نے بارہ جولائی 2013 کا دن دنیا بھر میں تعلیم سے محروم بچوں کو ان کا یہ حق فراہم کرنے کےلئے ایک یاد دہانی کے طور پر منایا ۔ اس دن کو ملالہ کی جدوجہد کے تناظر میں عالمی ملالہ ڈے قرار دیا گیا تھا۔ اس دن ملالہ یوسف زئی نے اقوام متحدہ میں نوجوانوں کی ایک خصوصی جنرل اسمبلی میں تعلیم کے حوالے سے ایک تاریخی خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں ملالہ نے تعلیم کو حقیقی طاقت قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ دہشتگرد تعلیم کی طاقت سے خوفزدہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات کہتے ہوئے وہ ہر اس فرد کی آواز ہیں جو تعلیم کا حق حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ملالہ یوسف زئی نے کہا کہ طالبان کا خیال تھا کہ ان کی گولی مجھے خاموش کرا دے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ میں اب بھی وہی ملالہ ہوں جو حملے سے پہلے تھی۔ میرے عزائم ، امید اور حوصلہ بھی وہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بندوق کو دیکھ کر ہمیں قلم اور کتاب کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ملالہ نے اپنے اس تاریخی خطاب میں ایک تاریخی جملہ کہا کہ ’’ایک طالب علم، ایک استاد، ایک کتاب اور ایک قلم دنیا تبدیل کر سکتے ہیں‘‘۔ اس لئے میں اقوام متحدہ میں کھڑی ہوکر یہ بات کہنا چاہتی ہوں کہ دنیا کے ہر بچے کو تعلیم فراہم کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ تعلیم ہی سب مسائل کا حل ہے۔
آج ملالہ دنیا بھر میں خواتین اور بچیوں کے حقوق اور تعلیم کی فراہمی کے لیے سرگرم ہے۔ گذشتہ ساڑھے چار سال میں ملالہ نے تعلیم سے متعلق بہت سارے ایوارڈ حاصل کیے ہیں۔ 10 اکتوبر 2014 کو ملالہ کو بچوں اور کم عمر افراد کی آزادی اور تمام بچوں کو تعلیم کے حق کے بارے جدوجہد کرنے پر 2014 کا نوبل امن انعام دیا گیا۔ انیس سالہ نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کو پیر 10 اپریل2017کو کو اقوام متحدہ کی جانب سے امن کا پیامبرمقرر کیا گیا ہے۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والی بھی سب سے کم عمر فرد ہیں۔ اس موقع پر ملالہ کا کہنا تھاکہ’’دہشتگردوں نے مجھے جان سے مارنے کی کوشش کی لیکن وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے‘‘۔ 12 اپریل 2017 کو ملالہ کو کینیڈا کی اعزازی شہریت دے دی گئی، ملالہ یوسف زئی کا کینیڈا کے ہاؤس آف کامنز میں زبردست استقبال کیاگیا،وزیراعظم جسٹس ٹروڈو سمیت تمام ارکان نےکھڑے ہوکرتالیاں بجائیں، ملالہ یوسف زئی کیلئے کینیڈا میں پونے دو منٹ تک تالیاں گونجتی رہیں۔کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے ملالہ کو جہالت کے اندھیروں میں تعلیم کی روشنی قرار دیا۔ پارلیمنٹ سے خطاب میں ملالہ کا کہنا تھا کہ دہشتگرد میرے مذہب کےنمائندے نہیں،اگرکوئی بندوق اٹھا کر دہشتگردی کرتا ہے تو وہ مسلمان نہیں رہتا۔ملالہ یوسف زئی نے کہا کہ امریکا کو بھی کینیڈا کی پیروی کرنی چاہیے۔ تعلیم کے بغیرانسان بے شعور ہوتا ہے اور اُسں کا عمل بےمقصد ہوتا ہے اوروہ جانے انجانے میں غلطیاں کرتا ہے۔ پاکستان میں نظام تعلیم نہ صرف نقائص سے دوچار ہے بلکہ عدم توجہی کا بھی شکار ہے۔ لیکن اس مایوس صورتحال کے باوجود ایک 19 سالہ نوبل امن انعام یافتہ پاکستانی بچی ملالہ یوسف زئی تعلیم کے لیے گذشتہ ساڑھے چار سال سے جہدو جہد کررہی ہے اور کافی حد کامیاب بھی ہے۔ امید ہے کہ اس کی جہدوجہد کے نتیجے میں پاکستان میں بھی تعلیم کا نظام بہتر ہوگا۔
ملالہ نے اب تک جو کچھ کیا ہے وہ قابل ستائش ہے ۔ ملالہ نے شاید اپنے جرات مندانہ عمل سے وہ کچھ کر دکھایا جو بہت سے لوگوں کے لیے ایک بڑی علامتی کامیابی ہے ،لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ علامتی کامیابیوں کے سہارے ہم کب تک اپنے آپ کو تسلیاں دیتے رہیں گے یا پھرکوئی حقیقی تبدیلی یعنی ’’اپنے آپ سے تبدیلی‘‘ کا آغاز کریں گے۔ اور آخرمیں سوال یہ ہے کہ جو روشنی ملالہ کے زریعے ملک کے عوام کو دکھائی دی ہے اس کے لیے ہمارے حکمرانوں نے تعلیم اور خاصکر بچیوں کی تعلیم کے لیے کیا کچھ کیا؟ آج پاکستان میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو چاہیے کہ وہ ملالہ کے مشن کواپنایں اور تعلیم ہر ایک کے لیے کے مشن پر کام کریں۔ ملالہ یوسف زئی جو اب جہالت کے اندھیرے میں تعلیم کی روشنی بن چکی ہیں ان کے اس تاریخی جملے پر میں اس مضمون کو ختم کرتا ہوں کہ’’ایک طالب علم، ایک استاد، ایک کتاب اور ایک قلم دنیا تبدیل کرسکتے ہیں‘‘۔