تحریر : نسیم الحق زاہدی جیسا کہ اپنے پچھلے کالم میں جنرل ضیا الحق شہید کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ چند باتیں غازی جہاد افغانستان اور جنرل ضیا الحق شہیدکے پرسنل اٹیچی فاروق حارث العباسی کی زبانی پیش کروں گا لہذا ایک ملاقات کے دوران انہوں نے بتایا کہ میں نے تقریباًساڑھے پانچ سال کا عرصہ جنرل ضیاالحق کے ساتھ گذارا انہیں نہایت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔جنرل صاحب پاکستان کے وجود میں آنے سے قبل میرے والد گرامی صوفی محمد انور کے گہرے دوست تھے۔ میرے والد بھی برٹش آرمی میں کیپٹن تھے اور ضیا الحق بھی اس وقت لیفٹینٹ تھے ۔میرے والد نے ایک واقع مجھے بتایا کہ جمعة المبارک کا دن تھا لیفٹینٹ ضیا الحق جمعہ کی نماز پڑھ کر اسی لباس میں اپنی یونٹ آگئے جس پر ان کا کمانڈر آفیسر جو انگریز کرنل تھا ۔برہم ہوا کہ تم سویلین لباس میں یونٹ کیوں آئے ۔کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اس بات پر تمہارا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے ؟ضیا الحق اس وقت سفید شلوار اور کالی شیر وانی پہننے ہوئے تھے ۔ضیا الحق نے نہایت اعتماد اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے کرنل کو جواب دیا ”بے شک میرا کورٹ مارشل کردیں مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ،کیا آپ نہیں جانتے یہ میرے قائد کا لباس ہے؟”انگریز کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور پھر دھیمے الفاظ میں کہا کہ اچھا ٹھیک ہے جائیںاور اپنا لباس تبدیل کرکے آئیں ۔(یہ 1945کا واقعہ ہے)والد صاحب بتایا کرتے تھے انکی زندگی انتہائی اسلامی طرز کی زندگی تھی اور انکی عادات واطوار کو دیکھ کر کہا جاتا تھا کہ وہ واقعی سراپا مسلمان اور عاشق رسولۖ تھے۔
ایک مرتبہ جب وہ کیپٹن تھے (تب پاکستان وجود میں آچکا تھا )ایک کورس پر گئے جہاں انہیں پہلے سے موجود ایک میجر کے کمرے میں جگہ ملی یعنی ہر آنے والے نئے افسر کو پہلے سے موجود افسران کے ساتھ اٹیچ کردیا گیااب کمرے میں ایک کونے میں میجر صاحب کا بیڈتھا اور دوسرے کونے میں کیپٹن ضیا الحق کا بیڈ جبکہ درمیان میں ایک ٹیبل تھی جس پر ضرورت کی چند اشیاء موجود تھیں رات گذری اگلی صبح تمام افسران میس میں ناشتے کی میز پر موجود تھے تو اس میجر صاحب نے ازراہ مذاق سب کو اپنی طرف متوجہ کیا اور جولی موڈ میں کہنا شروع کیا”یار میرے ساتھ ایک مولوی اٹیچ کر دیا گیا ہے ۔رات دوبجے اٹھ بیٹھتا ہے اور لائٹ آن کرکے دے سجدے پہ سجدہ ،سجدے پہ سجدہ شروع کردیتا ہے اور پھر قرآن پاک کی لمبی تلاوت ،لگتا ہے یہ کسی مذہبی مدرسے میں کوئی خاص کورس کرنے آیا ہے یار یہی تو ہمارے آرام کا کچھ وقت ہوتا ہے تمام افسران میجر صاحب کی بات اور انداز گفتگو پر ہنسنے لگے مگر کیپٹن ضیاالحق خاموشی کے ساتھ اپنا ناشتہ کرنے میں مصروف رہے ۔ناشتے کے بعد حسب معمول لیکچر کے لئے چلے گئے ۔اب اگلی صبح ناشتے کی میز پر وہی میجر صاحب افسران کے ساتھ کس طرح مخاطب ہیں انکی زبانی سنیے ”ڈئیر برادرز !میں اپنی کل کی بات پر آپ سب سے اور بالخصوص کیپٹن صاحب سے بہت شرمندہ اور معذرت خواہ ہوں ۔مجھے افسوس ہے کہ بنا کچھ دیکھے سمجھے میں نے ایسی بات کہی ۔رات دوسوابجے اچانک میری آنکھ کھلی ۔میں نے دیکھا کہ میز پر ایک چھوٹا ٹیبل لیمپ پڑا ہے جس کی مدہم روشنی میں کیپٹن صاحب تہجد کی نماز ادا کررہے ہیں نماز سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے اسی مدھم روشنی میں قرآن پاک کی تلاوت کی اور پھر لیمپ بجھا کر لیٹ گئے۔
میرے ضمیر نے مجھے سخت ملامت کی کہ ایک ایسے نوجوان نیک شخص کا میں نے مذاق اڑایا جوحقیقی معنوں میں اللہ کا عبادت گذار بندہ ہے۔میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کیپٹن صاحب نے اس وقت میری کسی بات کا جواب کیوں نہ دیا اور نہ ہی برامنایا بلکہ انہوں نے ایسا راستہ اختیار کیا جو سنت کے عین مطابق تھا ۔وہ لیکچر سے فارغ ہوکر بازار گئے وہاں سے ٹیبل لیمپ خریدا اور پھر اس لیمپ کی ہلکی روشنی میں اپنی عبادت جاری رکھی یہ سوچ کر کہ میرا میزبان بھی ڈسڑب نہ ہو اور میری عبادت میں بھی کوئی رکاوٹ نہ آئے ۔میجر صاحب نے یہ واقعہ اس وقت لکھا جب ضیا الحق چیف آف آرمی سٹاف اور ملک کے صدر بن چکے تھے۔
اس واقعہ کے آخر میں لکھتے ہیں ”یہ اس وقت کا کیپٹن اور آج کا صدر پاکستان جنرل ضیا الحق”مارچ 1983میں مجھے جنرل صاحب نے اپنے ساتھ بطور پرسنل اٹیچی اٹیچ کرلیا ۔کچھ ایسے اہم اور حساس امور تھے جن کا تذکرہ بیان کرنا مناسب نہیں ۔میں انکی شہادت یعنی 1988تک انکے ساتھ رہا ۔میں نے ان جیسا متحمل ،بردبار ،دور اندیش جرات مند ،پالیسی ساز ،محب وطن پکا اور سچا مسلمان اور انتہا درجے کا عاشق رسولۖانسانی زندگی میں نہیں دیکھا ۔وہ ایک شخصیت نہیں بلکہ کئی شخصیات کا مجموعہ تھے ۔ایک بہترین جرنیل بھی تھے اعلیٰ پائے کے سیاستدان بھی تھے بہترین منظم بھی تھے ،خارجہ پالیسی پر انہیں عبور حاصل تھاایک مرتبہ وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب خان جب خارجہ امور کے سلسلہ میں امریکا روانہ ہونے والے تھے تو جنرل ضیا الحق نے انہیں اپنے پاس بلایا اور سمجھاتے ہوئے کہا کہ ”اگر امریکی آپ سے ایٹمی پروگرام کے بارے میںسوال کریں تو انہیں کوئی جواب مت دینا ورنہ وہ آپ کو گھیر لیں گے ،آپ ان سے مختصراًکہیں کہ اس معاملہ میں میں کچھ نہیں جانتا آپ جنرل صاحب سے بات کریں ”یہ جنرل ضیا الحق کا ہی کارنامہ تھا کہ انہی نے ایٹم بم بنانے میں دن رات ایک کردیا۔ہمارے مایہ ناز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر اے کیو خان سے زیادہ اس بات کو اور کون جان سکتا ہے۔ایک معروف واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جنرل صاحب ایک مرتبہ جب مکہ تشریف لے گئے تو ان کے ہمراہ میاں صلاح الدین (چیف ایڈیٹر ہفت روزہ تکبیر )ضیا شاہد ،مجیب الرحمن شامی ،الطاف حسن اور ایسے نامور صحافی واخبارات مالکان بھی ہمراہ تھے عصر کی نماز کا وقت قریب تھا ہزاروں کی تعداد میں لوگ جماعت ہونے کے انتظار میں بیٹھے تھے جنرل ضیا الحق کو مقام ابراہیم پر جگہ ملی تو وہ وہیں بیٹھ گئے سر پر انہوں نے چھوٹا ساتولیہ رکھا ہوا تھا ۔جب نماز کھڑی ہونے لگی تو امام کعبہ کو کسی نے بتایا کہ جنرل ضیا الحق بھی تشریف لائے ہوئے ہیں ۔امام کعبہ نے پوچھا کہ کہاں ہیں ؟اس شخص نے بتایا کہ مقام ابراہیم کے قریب بیٹھے ہیں۔
امام کعبہ اپنی جگہ سے اٹھے اور سید ھا جنرل ضیا کے پاس پہنچ گئے ۔کندھے پر ہاتھ رکھا تو جنرل صاحب نے سر اٹھا کر دیکھا تو امام کعبہ تھے جنرل صاحب انکے احترام میں فوراًکھڑے ہوگئے اور گلے ملے ۔امام کعبہ نے جنرل ضیا کا ہاتھ پکڑے رکھا اور اپنے ساتھ لے چلنے لگے اور پھر اپنی جگہ پرامامت کے لیے انہیں کھڑا کردیا اور کہا کہ آج نماز آپ پڑھائیں گے ۔جنرل ضیاالحق کے چہرے پر ایک خوف طاری ہوگیا اور گھبرا کر کہا کہ امام کعبہ تو آپ ہیں ۔میں بھلا کیسے نماز پڑھا سکتا ہوں ؟امام کعبہ نے کہا کہ میں کعبہ کا امام ہوں ۔پورے عالم اسلام کے امام آپ ہیں اس لیے آج نماز آپ ہی پڑھائیں گے اس طرح جنرل ضیاالحق نے نماز عصر پڑھائی اور امام کعبہ نے آپ کی امامت میں نماز ادا کی ۔میاں صلاح الدین نے لکھا کہ اس وقت جنرل ضیا الحق کی حالت یہ تھی کہ رو روکر آنکھیں سرخ ہوچکی تھیں اور پورے جسم پر کپکپی طاری تھی ۔جنرل ضیا الحق شہید اکثر قرآن وسنت کی باتیں کرتے اور انحضرتۖ کا ذکر کرتے کرتے آبدیدہ ہوجاتے ۔انکے ایسے ایسے واقعات ہیں کہ جن پر عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ اپنی ذات میں ایک درویش اور ولی اللہ تھے ۔انکی درویشی اور ولایت کا ایک واقعہ آپ کو سناتا چلوں ۔ایک شام ہم آرمی ہائوس راولپنڈی میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مغرب کی اذان کا وقت ہوگیا سامنے اونچائی پر تین جوان مستعد کھڑے تھے جن کے ہاتھوں میں بِگل تھے ۔ڈیوٹی تبدیل ہونے سے قبل وہ جوان وقفے وقفے سے تین بار بِگل بجاتے ۔تیسرے بِگل پر جن جوانوں نے وہاں ڈیوٹی سرانجام دینا ہوتی وہ ڈبل کرکے جائے اور بِگل سنبھال کر اپنی ڈیوٹی پر پہنچ جائے۔
اس دن نہ جانے کیا ہوا کہ جب دوسرا بِگل بجایا گیا تو جنرل صاحب نے پاس کھڑے ایک ملازم سے کہا کہ بِگل بجانے کی کیا ضرورت ہے یونہی اپنی ڈیوٹی تبدیل کرلیا کریں اس نے جاکر ان تینوں کو جنرل صاحب کا حکم سنایا ۔انہوں نے کہا کہ اگر کرنل صاحب ہمیں کہہ دیں تو پھر ہم بگل نہیں بجائیں گے اس ملازم نے آکر ان تینوں کا جواب جنرل صاحب کو بتایا جنرل ضیاالحق مسکرائے اور خاموش ہوگئے اسی اثناء میں تیسرا بِگل بجانے کا وقت آگیا ۔اب وہ بِگل بجائیں مگر بِگل بج نہیں رہا تھا ۔وہ بار بار بِگل بجارہے تھے مگر بگل نہیں بج رہا تھا یہ نظارہ ہم سب دیکھ رہے تھے ۔جنرل صاحب نے اسی ملازم کو کہاکہ جائو اور ان سے پوچھوکہ بگل کیوں نہیں بجا رہے ؟وہ گیا اورپھر واپس آکر بتایا کہ تینوں بگل نیچے سے پھٹ گئے ہیں یعنی انکے ٹانگے اکھڑ گئے ہیں جن سے ہوا نکل جاتی اس لیے بگل نہیں بج رہے۔
جنرل صاحب نہایت لاپرواہی کے ساتھ اٹھے اور یہ بات کہہ کر مغرب کی نماز کے لیے روانہ ہوگئے کہ ”میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا اذان کاوقت ہے بِگل بجانے کی کیا ضرورت ہے اگر جنرل ضیا صحب کے ایسے واقعات بیان کرنے شروع کردوں تو آپ کے قلموں کی سیاہی ختم ہوجائے گی مگر انکی ایمان افروززندگی کے واقعات ختم نہ ہوگئے ۔کرنل صدیقی جنرل ضیا الحق کے ساتھ 26سال رہے وہ بتاتے ہیں کہ میں نے ان 26سالوں میں انکی تہجد کی نماز قضاء ہوتے نہیں دیکھی ۔جو لوگ جنرل ضیا الحق شہید کے متعلق بے ہودہ زبان استعمال کرتے ہیں بد ترین گستاخی کے مرتکب ہورہے ہیں اس لیے کہ جنرل ضیا الحق شہید اس ہستی کا نام ہے جنہیں رسول مقبولۖ کی زیات نصیب ہوئی یہ واقعہ بھی ہفت روزہ تکبیر کے چیف ایڈیٹر میاں صلاح الدین مرحوم نے ستمبر 1988کے شمارے میں بیان کرچکے ہیں ۔یہ ہیں وہ جنرل ضیا الحق شہید جن کے متعلق ملالہ نے اپنی کتاب میں بے ہودہ الفاظ استعمال کیے ہیں انشاء اللہ ملالہ یوسف زئی کی کتاب کے ایک ایک مضمون کا جواب دیں گے (جاری ہے)