تحریر : علی عمران شاہین یہ کہانی ہے2009ء کی، جب سوات کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہاں طالبان کا قبضہ ہو چکا ہے۔ ایک باپ اپنی گیارہ سالہ بیٹی کو لیے بیٹھاہے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی خصوصی ڈاکومنٹری (Class Dismissed)میں بتایا جاتا ہے کہ ”یہ خوشحال پبلک سکول کا مالک ضیاء الدین یوسف زئی ہے جو 14سال سے سکول چلا رہاہے۔ اس کی یہ گیارہ سالہ بیٹی ہے جو اس کاایک خواب ہے۔”پھر ساتھ ہی ملالہ اپنی ٹوٹی پھوٹی انگلش میں بتاتی ہے کہ میں پڑھنااور ڈاکٹربنناچاہتی ہوں۔ پھروہ مزید الفاظ نہ پاکرخاموش ہوجاتی ہے۔” اس کے ساتھ ہی کچھ لوگوں کوپشاورمیں مظاہرہ کرتے ہوئے دکھایاجاتاہے جوبینراٹھائے نعرے لگا رہے ہیں”پاکستان کامطلب کیا!بم دھماکے اور اغوا” ان مظاہرین کی قیادت ضیاء الدین یوسف زئی کررہاہے۔ پھر ساتھ ہی ضیاء الدین کودوبارہ اپنے سکول کے ایک کمرے میں داخل ہوتادکھایاجاتاہے’جہاں نمازکے لیے صف بچھی ہے تو ساتھ ہی ایک بجھی سگریٹ بھی پڑی ہے… ضیاء الدین یہاں گویاہوتاہے اورکہتاہے کہ ”جولوگ یہاں قیام پذیر تھے وہ بہت گندے تھے۔”
ساتھ ہی ملالہ سکول کے پرنسپل کے کمرے میں داخل ہوتی ہے اورپرنسپل کی کرسی پربیٹھ کر ایک ڈائری نکالتی ہے اوربتاناشروع کرتی ہے کہ جولوگ یہاں آئے تھے’ وہ فوجی تھے ۔انہوں نے میری سہیلی کی ڈائری میں عشقیہ شعروشاعری لکھی ہے۔انہوں نے لکھاہے کہ وہ پاک فوج کے سپاہی ہیں ‘انہوں نے لکھا ہے کہ انہیں پاکستانی ہونے پرفخرہے اور وہ پاکستانی فوج کے سپاہی ہیں لیکن انہیں سپاہی کے انگریزی میں ہجے لکھنے بھی نہیں آتے۔ انہوں نے میری جس سہیلی کے لیے عشقیہ الفاظ لکھے ہیں’ وہ تواتنی چھوٹی ہے کہ اسے ایساکچھ پتہ بھی نہیں۔ ہمیں کہاجاتاہے کہ (سوات میں)ہماری فوج ہماری حفاظت کرنے آئی ہے لیکن جب میں اپنے اس سکول کو اس حال میں دیکھتی ہوں تومجھے اپنی فوج پر شرم آتی ہے۔ساتھ ہی ایک خط دکھاکربتایاجاتاہے کہ یہ خط ضیاء الدین کے لیے فوج نے چھوڑاہے جس میں لکھاہے کہ تمہاری غفلت اور نااہلی کی وجہ سے طالبان نے وادیٔ سوات پرقبضہ کرلیاتھا۔پھرساتھ ہی ملالہ اپنے ایک کمرے میں داخل ہوکر دیوارمیں سوراخ کی طرف اشارہ کرکے بتاتی ہے کہ ہمارے سکول کایہ حشرکیاگیا ہے۔ یہ کلاس روم ہے لیکن اب یہ کلاس روم نہیں بلکہ فوج کا ایک بنکرہے۔پھرساتھ ہی سوراخ کے دوسری طرف شہر مینگورہ پر نظر ڈال کر ملالہ انتہائی نفرت آمیز لہجے میں کہتی ہے ”یہ ہے ہماراپاکستان”
پاکستانی ریاست اور پاکستانی فوج کے خلاف ملالہ اوراس کے باپ کی یہ باتیں2009ء کے آغاز کی ہیں جب کسی کے وہم وگمان میں ہی نہیں تھاکہ جلد ہی وہ وقت آنے والاہے کہ ملالہ دنیاکی سب سے بڑی شخصیت بن جائے گی۔یہ2009ء کاہی زمانہ تھا جب پاک فوج نے سوات میں آپریشن کاآغازکیا۔اسی دوران میں ”گل مکئی” نام کی ایک لڑکی کی بی بی سی اردو پرکہانیاں شائع ہونا شروع ہوئیںجن کے بارے میں بعدمیں پتہ چلا کہ یہ کہانیاں بی بی سی کانمائندہ عبدالحئی کاکڑاس کے والد ضیاء الدین یوسفزئی کے ساتھ مل کر لکھاکرتاتھا۔ بہرحال9مارچ2009ء کی ڈائری میں اس گل مکئی نے لکھا کہ”میرابھائی اکثردعا کرتا ہے کہ ”اے اللہ!سوات میں امن اگرنہیں آتاتوپھرامریکہ یاچین کو یہاں لے آنا” وقت گزرتاگیا یہاں تک کہ بی بی سی پر یہ کہانیاں ختم ہوئیں تو ملالہ کے باپ ضیاء الدین یوسف زئی نے نیویارک ٹائمز کے رپورٹر ایڈم بی ایلک سے رابطہ کیا اور اسے اپنے بارے میں ایک ڈاکومنٹری بنانے پر آمادہ کیا۔ ایڈم بی ایلک اس فلم کے لئے 6ماہ تک سوات میں مقیم رہا۔پھر سوات میں آپریشن ہواور یہ خاندان ایک دوسرے سے چندہفتوں کے لیے علیحدہ ہوا اور 24جولائی2009ء کو ان کی باہم ملاقات ہوئی تو انہیں امریکی صدر بارک اوبامہ کی جانب سے امریکہ کے دورے کی دعوت ملی۔یہ دعوت افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکی نمائندہ رچرڈہالبروک بنفس خبیث خود اس خاندان کے پاس لے کرپہنچا۔نیویارک ٹائمزکی ڈاکومنٹری میں ان کی باہم ملاقات بھی دکھائی گئی ہے۔ اس کے ساتھ سب کاتذکرہ نیویارک ٹائمز کے صحافی ایڈم بی ایلک نے 2009ء میں ہی کردیاتھا جب اس نے اس خاندان پراس ڈاکومنٹری کے چلنے کے بعدملالہ کااگلا انٹرویو پشتوٹی وی چینل خیبر’ مقامی اردواخبار آج اور پھرکینیڈا کے اخبار ٹورنٹوسٹارمیں شائع ہوا ۔اس کے بعد باقاعدہ طور پر دوبارہ 19اگست2009ء کوملالہ اس وقت منظرعام پرآئی جب پاکستان کے معروف صحافی حامد میرنے اپنے پروگرام میں اسے مدعوکیاتھااور پھر یہ سلسلہ آگے بڑھتاگیا۔یہ اس سب کانتیجہ تھا کہ اکتوبر 2011ء میں جنوبی افریقہ کے اینگلوچرچ کے آرچ بشپ ڈسمونڈ ٹوٹونے اسے بچوں کے لیے بین الاقوامی انعام برائے امن کے لیے نامزدکردیا۔
Malala Yousafzai
پاکستان کے لیے اس خاندان کے معاملات اس حدتک پریشان کن ہوگئے کہ حکومت پاکستان کوبھی اپنی ساکھ اور ناک بچانے کے لیے قومی اعزازات کااعلان کرنا پڑا حتّٰی کہ وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کے ہاتھوں اسے امن ایوارڈ برائے نوجوانان سے نوازدیا گیا۔ اکتوبر2012ء میں ہی پاکستان میں منعقدہ مارکسزم کی32ویں کانگرس سے خطاب میں ملالہ نے کہا:”میں اس بات کوتسلیم کرچکی ہوں کہ سوشلزم ہی دنیا میں وہ واحدراستہ ہے کہ جس کے ذریعے ہم استحصال اور غلامی سے نجات پاسکتے ہیں۔سو میں اپنے تمام ساتھیوں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ اس سلسلے میں مکمل کامیابی تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔”پھر10اکتوبر2012ء کادن طلوع ہوا جب دنیا نے یہ خبرسنی کہ مینگورہ سوات میں ملالہ کوگولی ماری گئی ہے اور گولی اس کاسر’گردن اور کندھا چیرکر نکل گئی ہے۔حملے کی سب سے پہلے مذمت کرنے والوں میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون ‘امریکی صدر بارک اوباما’ہیلری کلنٹن ‘برطانوی وزیرخارجہ ولیم ہیگ پیش پیش تھے توعالمی شہرت یافتہ امریکی گلوکارہ میڈونا نے اپناگاناHuman Natureاسی وقت یعنی حملہ کے روز ہی ملالہ کے نام کرنے کااعلان کردیااور پھراپنی کمر پرملالہ کا نام بھی(بطورِ عارضی ٹیٹو)کندہ کرالیا۔اگلے ہی روز اداکارہ اینجلیناجولی نے اظہارِ ہمدردی کرتے ہوئے ملالہ کے لیے 2لاکھ ڈالرعطیہ کیے توامریکی صدر اوبامہ کی بیوی میشلنے واشنگٹن پوسٹ میں لکھے اپنے مضمون میں اس حملہ کو یہودیوں کے قتل عام یعنی ہالوکاسٹ جیساظلم قراردیا۔
چنددن پاکستان میں زیرعلاج رہنے کے بعد ملالہ برطانیہ کے کوئین ایلزبتھ ہسپتال میں خصوصی ایمبولینس طیارے کے ذریعے پہنچ گئی اور پھرجلد ہی اس کاسارا خاندان بھی برطانیہ منتقل ہوگیا۔ معروف صحافی انصارعباسی اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ انہیں انتہائی قابل اعتماد ذرائع نے بتایا تھا کہ ضیاء الدین یوسف زئی نے اس وقت کے وزیرداخلہ عبدالرحمن ملک کو کھلے الفاظ میں دھمکی دے کر کہاتھا کہ اگر انہیں فوری طورپر برطانیہ بھیجنے کاانتظام نہ کیاگیا تووہ برطانیہ کو سیاسی پناہ کی درخواست دے دیں گے۔ اس دھمکی پرحکومت پاکستان نے انہیں فوری طورپر برطانیہ بھیجنے کا انتظام کیا جس کے لیے برطانوی حکومت توپہلے ہی تیار تھی۔ چنددنوں میں ملالہ کے سارے زخم ٹھیک ہوگئے۔سر’گردن اور کندھے کازخم غائب ہوگیااورپھر12جولائی2013ء کو ملالہ اقوام متحدہ سے خطاب کرنے پہنچی تواسی ماہ اس نے برطانوی ملکہ الزبتھ سے بھی بکنگھم پیلس میں ملاقات کی۔یہیںبرطانیہ میں ایک کانفرنس کے دوران اپنے خطاب میں ملالہ نے کچھ الفاظ جو اداکیے ‘وہ یوں تھے۔ ” رسوم ورواج آسمانوں سے نہیں بھیجے جاتے ‘نہ یہ خدا کی جانب سے نازل ہوتے ہیں۔ہم انہیں خود بناتے ہیں اور خود تبدیل کرتے ہیں اورہمیں ان کو تبدیل کرناہی چاہئے۔” اس سارے عرصہ میں یورپی ممالک ‘ان کا میڈیا اور شخصیات ملالہ کو جو دے اورکہہ سکتے تھے’ وہ یہ سب کرتے رہے۔
آج وہی ملالہ ان کے دل کا چین ،آنکھ کا نور ہے کیونکہ وہ اسے ایک ایسی لمبی منصوبہ بندی کے لئے میدان میں اتار چکے ہیں کہ جس کا آغاز انہوں نے بہت پہلے اس وقت کیا تھا جب ہم میں سے کسی کو اندازہ تک نہیں تھا کہ ملالہ نام کی ایک بچی اور اس کا خاندان دنیا کے ایس مقام تک پہنچنے والے ہیں جہاں کا آج تک کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں ہو گا۔تعلیم،تعلیم اور بس تعلیم کا رٹا لگا کر پاکستان کو دنیا کا جاہل ،اجڈ اور جنگلی جانوروں کا معاشرہ اور ملک ثابت کرنے والوں کو آخر عالم اسلام کی سب سے پڑھی لکھی خاتون ،نیورو سائنسدان ڈاکٹر عافیہ صدیقی نظر کیوں نہیں آتی۔صرف اس لئے کہ وہ حافظہ قرآن اور عالمہ دین ہے۔ اسے عالم اسلام کی تکلیفوں کا دکھ ہے۔وہ دنیا میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر اپنے جذبات کا اظہار کر کے کڑھتی تھی ۔سووہ ان کے وہ اغراض مقاصد پورے نہیں کر سکتی جو وہ ملالہ سے پورے کرانا چاہتے ہیں۔سوال تو ہمارے لئے ہے کہ ہم آخر کب جاگیں گے۔