تحریر : پیر سید محمد کبیر علی شاہ آج جب میں نے عالم تخیل میں ایک طرف اپنی قوم کی ایک بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی سامراج کے بے رحم شکنجے میں جکڑا ہوا دیکھا تو میرے رونگھٹے کھڑے ہو گئے اور میرے روئیں روئیں سے درد کی ٹیسیں نکلنے لگیں کہ کس طرح بد نامِ زمانہ جیل ”گوانتا نا موبے ”میں ایک مسلمان کی بیٹی اذیت کا شکار ہے قوم کی وہ بیٹی جس نے اپنی زبان پر ہمیشہ قال اللہ و قال الرسول ۖ کا ورد جاری رکھا آج اُس کی سماعتیں یہ آفاقی نغمے سُننے کے لیے بے تاب ہیں مگر وہ پھر بھی عزم و ہمت کی ایک لازوال داستاں بن کر تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن گئی ہے جبکہ دوسری طرف اسی دھرتی کی ایک بچی جس کو کبھی تو ”گُلِ مکئی ” کا نام دیا گیا اور کبھی اسے ”ملالہ ” کہا گیا اس پر پھر کبھی تفصیل سے ”داستانِ الم ” اور ”مال و ملال کہانی ” رقم کریں گے آج ہم صرف ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ”قصور ” اور ملالہ یوسف زئی سے آنے والے وقتوں میں جو ”کام ” لیا جانے والا ہے اُس پر اور نوبل انعام پرچند پیرا گراف تحریر کریں گے۔
سب سے پہلے تو ملالہ یوسف زئی کو ملنے والے ”نوبل انعام ” ہی پر کچھ گزارشات پیش کریں گے۔۔۔۔یہ نوبل انعام کیا ہے اور کن لوگوں کو دیا جاتا ہے ۔۔۔۔؟1913ء میں رابندر ناتھ ٹیگور کو ادب کا نوبل انعام ملا طرفہ تماشہ دیکھیے کہ 1963ء میں 1914ء کی نوبل کمیٹی کی وہ خفیہ کارروائی منظر عام پر آئی جس نے نوبل انعام کی اصل حقیقت کو طشت از بام کیا کہ یہ کون کون سی ‘خاص شخصیات ” کے گلے کا ”زیور ” بنا یا جاتا ہے اس کا خلاصہ یہ تھا کہ” جنگ عظیم اول کی تباہ کاریوں کے سبب نوبل انعام ان ہاتھوں میں نہ دیا جائے جو قومیت پرستی کا حامی ہو اور مخصوص قوم کے ملی جذبات اُبھار کر دنیا پر چھا جانے کی ترغیب دیتا ہو ”اور یہی وجہ ہے کہ مرد ِ درویش، قلندر لاہوری ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اس انعام سے محروم رہے کیونکہ علامہ اقبال ملت اسلامیہ کو ہمیشہ اقوام ِ مغرب پر ترجیح دیتے تھے، بانگِ درا میں بقول قلندر لاہوری
دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
ڈاکٹر علامہ اقبال کی تحریریں پڑھ کر ایک باشعور انسان بخوبی اندازا لگا لیتا ہے کہ علامہ اسلامی نشاء ة ثانیہ کے قائل تھے اور اقبال کے تصور میں پین اسلامزم کا خواب سجا ہوا تھا کیونکہ اقبال دنیا پر اسلام کو غلبہ دلانا چاہتے تھے اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ کے بھی خواہاں تھے ان تمام تخیل و تصورات اور ہندوستان کی قومیت سے انحراف اور اسلامی قومیت ، اسلامی نشاة ثانیہ کا خواب دل میں سجائے اقبال کو نوبل انعام کیسے مل سکتا تھا۔۔۔۔۔؟حالانکہ اقبال نے ادب کے میدان میں وہ خدمات سر انجام دی ہیں جو آج ادب کے ماتھے کا جھومر ہیںاور اقبال یہ انعام حاصل بھی نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ اس عمل سے اُن کی خودی مجروح ہونا تھی ساری زندگی خودی اور انا کا درس دینے والا مردِ قلندر یہ کیسے برداشت کرتا کہ وہ اپنی خودی مغرب کے ہاں گروی رکھ دیتا ۔۔۔۔۔۔۔؟ تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ژاں پال سارتر نے ادب کا نوبل انعام اس لیے قبول نہیں کیا تھا کیونکہ وہ نہیںچاہتے تھے کہ ”نوبل انعام ملنے کے بعد لوگ انہیں ”نوبل انعام یافتہ ژاں پال سارتر ”کہیں ۔۔۔۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ انعام لے کر سارتر کی وجودی انا مجروح ہونی تھی اس بنا ء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ نوبل اور لینن انعام میں سیاسی کلچر کا جبر پوشیدہ ہوتا ہے اور یہ نوبل انعام ان لوگوں کو دیے جاتے ہیں جو انعام دینے والوں کے نظریاتی و فکری گماشتے ہوتے ہیں اور اس کے لیے با قاعدہ ممی ڈیڈی، فارن پیڈ، فارن میڈ، فارن فنڈڈ این جی اوز لابنگ بھی کرتی ہیں ڈاکٹر عبد السلام کو بھی نوبل انعام محض اس وجہ سے دیا گیا تھا کیونکہ وہ بھی ایک تو قادیانی تھے اور دوسرا مغرب کے نظریاتی گماشتے اور اُنہی کے مقاصد کے لیے پاکستان میں کام کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔ اب اللہ جانے مغرب اور اُن کے گماشتے پاکستان کی اس بچی سے پاکستان میں کون سے ”مقاصد ”حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔؟ دوسری قوم کی حقیقی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بھی امریکی گماشتوں نے مجاہدہ تصور کرتے ہوئے گوانتے ناموبے اذیت گاہ میں پہنچا دیا ہے ،خانوادہ صدیقِ اکبر کی شہزادی کو کس بھائو امریکیوں کے عوض بیچا گیا؟اپنا شجرہ نسب سادات سے جوڑنے والے سیاہ رو ڈکٹیٹر اور بُزدل جرنیل نے اپنی کتاب میں خود بردہ فروشی کا اعتراف بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کیا ہے کہ ”سینکڑوں افراد کو امریکہ کے حوالے کر کے ہم نے لاکھوں ڈالرز وصول کیے ہیں۔
Pakistan
س جھُلستے صحرا میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے جدوجہد کرنے والی تن تنہا عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی ہیں جو میں سمجھتا ہوں ”آبِ زُلال ” کی حیثیت رکھتی ہیں۔۔۔عافیہ کی بہن فوزیہ نے بھی کیا کیا جتن کیے، لیکن راکھ کے ڈھیر میں توانا چنگاری نہ سلگی، سُلگی بھی تو شعلہ نہ بن سکی ایسی چنگاریوں کو شعلہ بننے کے لیے غیرت و حمیت کی آکسیجن چاہیے جو اس آب و ہوا میں کمیاب ہوتی جا رہی ہے۔
امریکی دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے اس سیلاب کے آگے اگر جرات و حمیت ،غیرت ِ ملی اور قومی شعور کا بند نہ باندھا گیا تو پھر آنے والی نسل کو یہ بد تہذیبی ،بد تمیزی اور امریکی مداخلت کا طوفان بہا کر لے جائے گا اور پھر کوئی باوردی بے غیرت حکمران اپنی تسکین کی خاطر چند ڈالرز کی ہوس میں قوم کی کسی ماں، بہن اور بیٹی کو امریکہ کے پاس گروی رکھوا دے گا اس پر وطن عزیز کی تمام تر دینی، سماجی اور سیاسی تحریکیں چُپ سادھ لیے ہوئے ہیں خانقاہوں کے سجاد گان بھی لمبی تان کے سو رہے ہیں جبکہ یورپ اور مغرب ہماری ثقافت اور غیرت کی دھجیاں بکھیرنے پہ تُلا ہوا ہے مادر پدر آزاد،فارن فنڈڈ ، فارن پیڈ اور میڈ این جی اوز مختاراں مائی کے مسئلے پر تو آسمان سر پر اُٹھا لیتی ہیں اور پلے کارڈ لے کر ”پلے بوائز ” و ”کال گرلز ” کا تحفظ کرنے کے لیے پریس کلبز کے باہر ہنگامہ کھڑا کر دیتی ہیں اور پھر ڈالرنائنز ڈ این جی اوز کی حمایت میں امریکی سفارت خانہ بھی حرکت میں آجاتا ہے امریکی راتب پر پلنے والوں کی ”حالت زار” دیکھ کر ٹیلی فون کی گھنٹیاں کھڑکنے لگ جاتی ہیں اور ہمارے حکمرانوں کے دل بھی ساتھ ساتھ دھڑکنے لگ جاتے ہیں مگرجینوئن دُختر مشرق ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مسئلے پر اس طرح کی خاموشی ،چہ معنی دارد ؟ امن کی آشا ” والے بھی حکمرانوں کی اس بے حسی پر چُپ سادھ لیے ہوئے ہیں ،ہمارے ایوانِ وزیر اعظم اور ایوان ِ صدر نے دُختر ِ مشرق ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے ”چُپ کا روزہ ” رکھا ہوا ہے اور نہ معلوم یہ خاموشی و چُپ کا روزہ کب کھُلے گا ۔۔۔؟ ہمارے حکمران بھی کاش ہوس کے طبلے کی تھاپ پر رقص کرنے والی کے پائوں میں پہنی پائل کی جھنکار سے خواب ِ غفلت سے بیدار ہو جائیں اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے عملی قدم اُٹھا سکیں۔
Aafia Siddiqui
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا امریکہ کی جیل میں قید ہونا دراصل اس بات کا غماز ہے اور مغربی ٹکڑوں پر پلنے والی ان این جی اوز کا فقط ایک ہی ایجنڈہ ہے کہ جیسے تیسے ہو سکے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کر کے ان میں فرقہ واریت کا ایسا بیج بو دیا جائے جو آنے والی نسلوں کو اسلام سے بر انگیختہ کر دے ،آج یہی مغربی راتب اور امریکی ”بھاڑے ”پر پلنے والی این جی اوز توہین رسالتۖ کاارتکاب کرنے والی آسیہ مسیح کے جیل جانے پر سیخ پا ہو رہی تھیں اور ہمیں انسانیت کا درس دینے پر تلی ہو ئی تھیں کہ انسانیت کے ناطے آسیہ مسیح کو معاف کر دیا جائے بلکہ ان کے ”پاپ”بینڈکٹ نے بھی بینڈز کی دُھنوں میں یہ راگ الاپتے ہوئے کہا تھا کہ ”توہین رسالت ۖ کا قانون ختم اور آسیہ مسیح کو جلد رہا کیا جائے ”مگر انہی ڈالر نائزڈ اور پائونڈ نائزڈ این جی اوز کی ”بیگمات”اوران کے ”پاپوں ”بینڈکٹوں کو بے گناہ اور معصوم پاکستانی قوم کی مسلم بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی نظر نہیں آئی جن کو نام نہادتحفظ انسانی حقوق کے علمبردار امریکہ کی گماشتہ عدالت نے 86سال کی قید با مشقت سزا سنا دی اور امریکہ کی تاریخ میں کسی کو سنائی جانے والی یہ سب سے زیادہ سزا ہے اس پر تو نام نہاد دانشوروں کے کسی گروہ ،دینی تعلیمات سے نابلد کسی اینکر پرسنزاورانسانی حقوق کی چیمپیئن این جی اوز کے کسی کونے کھدرے سے ذرا سی بھی آواز بلند نہیں ہوئی اور نہ ”پاپ” بینڈکٹ جی کو خیال آیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بھی رہا کیا جائے حالانکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے کسی دھرم ،کسی مذہب اور کسی شخصیت کی توہین نہیں کی تھی پھر بھی ان کو اتنی بڑی سزا سنادی گئی ،کیا ڈاکٹر عافیہ کسی کی ماں ، بہن اور بیٹی نہیں تھی ؟عیسائیوں کے”پاپ”بینڈکٹ نے یہ بیان دے کر دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں کی دل آزاری کی تھی اور دنیا میں امن و سلامتی کے عمل کو سبوتاژ کر نے کی گھنائونی کوشش کی تھی ناموس رسالت ۖ کے لیے مسلمانوں کا بچہ بچہ کٹ مرے گا مگر توہین رسالت ۖ قانون کو ختم نہیں ہو نے دے گا مغربی ٹکڑوں پر پلنے والے بے حس امریکی پٹھو،امریکی عقوبت خانے سے جُرات و استقامت کا پہاڑ بنے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی یہ صدا بھی سن لیں کہ ”کائنات کی تمام تر سلطنتیں رسول ِ رحمت ۖ کے نعلین مقدس کی نوک پر قربان کی جا سکتی ہیں۔
دُختر مشرق ڈاکٹر عافیہ صدیقی کاقصور صرف اور صرف یہ ہے کہ اپنے کریم آقا ۖ کی عظمت کے گُن گاتی تھی اور سیرت عائشہ و فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی روشنی میں زندگی گزارنے اور دوسری خواتین کو اس پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کیا کرتی تھی ، ڈاکٹر عافیہ صدیقی خالصتاََ ایک مومنہ اور مجاہدہ ہیں جنہوں نے ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ریاست ِ مدینہ کے بانی پیغمبر انسانیت ، رسول ِ رحمت حضور نبی کریم ۖ کے آفاقی پیغام کی بالا دستی کے لیے اپنا تن من دھن حتیٰ کہ سب کچھ قربان کردیا اور اپنے کریم آقاۖ کے فر مان لَا ےُومِنُ اَحَدُ کُم حتَیٰ اَکُونَ اَحَبَ اِلیہِ مِن وَالِدِ ہِ وَ لَدِ ہِوَالنَاسِ اَجمَعِین کی روشنی میں اُمت ِ مسلمہ کی مائوں ، بہنوں اور قوم کی بیٹیوں کودُختر ِ مشرق نے شاعر ِ مشرق کی زبان میں یہ آفاقی ، کائناتی پیغام دیا کہ۔
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے دہر میں اسم ِ محمد ۖ سے اُجالا کردے
دُختر مشرق ڈاکٹر عافیہ صدیقی جن کا حوصلہ ہمالیہ سے بلند اور عزم چٹان سے زیادہ مضبوط ہے امریکی عقوبت خانے بھی اِن کے جواں عزم حوصلوں کو شکست نہیں دے سکے بظاہر اِن کے جسمانی اعضاء پر خبیث امریکیوں کا کنٹرول ہے مگر دل آج بھی یاد ِ مُصطفیٰ ۖ میں دھڑکتا رہتا ہے اور زباں سے قرآن کریم کی تلاوت کا نور ایسے برستا ہے جیسے صُبح صادق کے وقت شبنمی قطروں سے رس ٹپکتا ہے، ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکی عقوبت خانے اوراذیت گاہ میں بھی قال اللہ و قال الرسول ۖ کی صدا کو بُلند رکھا ہوا ہے اور اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ماضی میں بر طانوی سامراج کے پٹھوئوں نے قال اللہ و قال الرسول ۖ کی صدائے حق بلند کرنے والے ہمارے اکابرین کو جذیرہ انڈیمان کالے پانی کی سزا دی اور آج امریکی سامراج نے اُسی بدعتِ بد کو گوانتے نا موبے جیسی اذیت گاہیں بنا کر زندہ رکھا ہوا ہے مگر یاد رہے کہ جس طرح ہمارے اسلاف اور اکابرین کے کارنامے آج اُمت کے سینے میں دلِ کی طرح ہمیشہ دھڑکتے رہتے ہیں اسی طرح ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کارنامے بھی ہمیشہ قوم کے ماتھے کا جھومر بنے رہیں گے ۔۔۔۔۔۔امریکی پٹھو لاکھ اُس کے گردے نکالیں ، دانت توڑیں ، ناک توڑیں ، اُس کی یاد داشت پر اُس کی یاد داشت پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑیں مگر ایک بات یاد رکھیں کہ جس طرح اُمیہ بن خلف نے حضرت بلال پر اپنے تمام تر ریاستی مظالم کے کوڑے بر سائے ، جھُلستے صحرا میں تپتی ریت پر ننگی پیٹھ لٹا کر سینے پر وزنی پتھر رکھ دیے تھے اور ہاتھوں میں کیل گاڑھ دیے تھے اور کہا تھا کہ رب کی وحدانیت سے باز آجائو اور ہُبل و منات کو رب مانیں مگر پھر بھی بازارِ مصطفیٰ ۖ میں بکنے والے اس عاشق رسول ۖ کی زباں سے ایک ہی جملہ ادا ہوتا رہا ”اَحد اَحد اَحد ”۔۔۔۔۔۔۔عالم تخیل اور تصور میں جب میں دیکھتا ہوں تو مجھے بھی عافیہ صدیقی موجودہ عہد کے اُمیہ بن خلف (امریکہ)کے ظلم و ستم کے جواب میں وہ یہ کہتے ہوئے نظر آتی ہے کہ ”ظالمو۔۔۔تم میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالو مگر میری زباں اور جسم کے ہر ٹکڑے سے ”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ” کی صدا بلند ہوگی ۔۔۔۔ملالہ یوسف زئی کے آئیڈیل نیلسن منڈیلا ہیںمگر دوسری طرف ڈاکٹر عافیہ صدیقی رسول ِ رحمت ، پیغمبر انسانیت حضور نبی کریم ۖ ، صدق کی چادر اوڑھے ، افضل البشر بعد الانبیاء حضرت ابو بکر صدیق کو اپنا آئیڈیل مانتی ہے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی زبان سے ادا ہونے جملے اُن کے اپنے ذہن اور آئیڈیاز کی عکاسی کرتے ہیں اور وہ اُن کے اپنے دل کی آواز ہوتے ہیں جبکہ ملالہ یوسف زئی کے منہ میں جملے ڈالے جاتے ہیں وہ مغرب کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کی جگا لی کرتی ہوئی نظر آتی ہے اگر ملالہ یوسف زئی کے دل میں پاکستانیت اور اسلام کا درد ہوتا تو وہ نوبل انعام ملنے سے پہلے مغرب پر واضح کرتی کہ میں اُس وقت تک یہ انعام قبول نہیں کروں گی جب تک پاکستان کی بیٹی، حریت وطہارت کے پیکر میں ڈھلی عظیم مجاہدہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی چنگل سے آزاد نہیں کیا جاتا ۔۔۔؟کیونکہ تاریخ کے صفحات گواہی دے رہے ہیں کہ ڈاکٹر علامہ اقبال نے برطانوی سامراج سے سر کا خطاب لینے سے اس لیے انکار کیا تھا کہ ”پہلے اُن کے اُستاڈ مولوی میر حسن کو شمس العلماء کے خطاب سے نوازا جائے ”کیونکہ محمد اقبال کو علامہ اقبال بنا نے میں مولوی میر حسن کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔
امن کا نوبل انعام جسے ہماری قوم شرف و عزت کا تاج سمجھ رہی ہے اگر اس کو حاصل کرنے والوں کی فہرست کا صرف طاہرانہ جائزہ لیا جائے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ کیسے کیسے انسانیت کے قاتلوں ،ظالموں اور سفاک بھیڑیے نما انسانوں کے سروں پر سجتے رہے ،ملالہ یوسف زئی نے اپنی کتاب ”آئی ایم ملالہ ”میں شاتم رسول سلمان رشدی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا کہ ”خفیہ ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے ایک مضمون نگار نے سلمان رشدی کی کتاب کو رسول ۖ کی شان میں گستاخی قرار دیا اور پھر پورے پاکستان میں ” مُلا ” باہر نکل آئے سوات بودھ حکمرانوں کی ملکیت تھا محمود غزنوی یہاں اسلام لایا ہمیں بدھا کے مجسموں پر فخر تھا ”ایک اور جگہ سلمان رشدی کی کتاب کو فریڈم آف سپیچ قرار دیتے ہوئے justifyکیا اور کہاکہ ”میرے والد نے اپنے کالج میں سلمان رشدی کی کتاب پر بند کمرے میں ایک گرما گرم بحث کا اہتمام کیا بہت سے طلبہ نے دلائل دیے کہ کتاب پر پابندی لگا کر اس کو جلا دینا چاہیے میرے والد نے بھی کتاب کو اسلام کے خلاف سخت پایا لیکن وہ سختی سے آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتے تھے انہوں نے تجویز دی کہ پہلے کتاب کو پڑھتے ہیں پھر اس کے جواب میں ایک کتاب لکھتے ہیں آخر میں انہوں نے گونجدار الفاظ میں کہا (جس پر میرے دادا کو فخر ہو گا )کہ کیا اسلام اتنا ہی کمزور ہے کہ اپنے خلاف ایک کتاب کو بھی بر داشت نہیں کر سکتا ، میرا اسلام تو ایسا نہیں ”فی سبیل اللہ الجہادکے ماٹو پرگامزن پاک فوج کے بارے میں ملالہ یوسف زئی اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ ”پاک فوج جانتی تھی کہ طالبان کا ایک گروپ علاقے میں دو مہینے سے موجود ہے اور پاک فوج یہ بھی جانتی تھی کہ وہ مجھے نشانہ بنا نا چاہتے ہیں مگر پاک فوج نے اُنہیں روکنے کی کوشش نہیں کی ”۔۔۔۔اور قوم ایک مغربی چینل پر بیٹھی ملالہ کا وہ انٹرویو ابھی بھولی نہیں ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ”ہم عورتیں وہاں قیدیوں کی طرح ہیں ”ملالہ یوسف زئی کی کتاب متنازعہ مواد سے بھری پڑی ہے اور اس کتاب میں جا بجا شانِ رسالت میں گستاخانہ جملے لکھے ہوئے ملتے ہیں اس لیے کہ یہ کتاب ملالہ نے خود نہیں لکھی بلکہ اسے کرسٹینا لیمب نے لکھا اور اس کا ریسرچ ورک بھی اسی نے کیا اس سے آپ اندازا لگا سکتے ہیں کہ ملالہ یوسف زئی کے منہ میں زبان ، دل میں خیالات اور ہاتھ میں قلم کس کا ہے۔۔۔؟اوراسنوبل انعام کیوں ناں ملتا ۔۔۔۔؟امریکی سامراج کی چاکری اوراسلامی شعائر کی بے حرمتی ”نوبل انعام ” کے حصول کا کسی بھی بدبخت کو حقدار ٹھہراسکتی ہے مگر یہ کام قوم کی بیٹی ڈاکٹرعافیہ صدیقی نہ کر سکی ۔۔۔۔ویلڈن ڈاکٹر عافیہ ۔۔۔۔۔۔شاباش قوم کی جینوئن بیٹی ۔۔۔۔آج اُمت مسلمہ کا ہر با غیرت اورذی شعور شخص قوم کی اس حقیقی بیٹی کو سلامِ عقیدت پیش کر رہا ہے۔
Peer Kabeer Ali Shah
تحریر : پیر سید محمد کبیر علی شاہ گیلانی مجددی (سجادہ نشین آستانہ عالیہ چورہ شریف )