نیو کاسل (جیوڈیسک) غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق بچوں کی تعلیم کیلئے سرگرم دونوں طالبات کی ملاقات برطانوی شہر نیو کاسل میں قائم ایک لائبریری میں ہوئی۔ دونوں نے مختلف موضوعات پر گفتگو کی۔ ملالہ کے بقول اُنہیں امید ہے کہ 2016ء کے دوران شام میں جنگ رک جائے گی اور بہر حال اس ملک میں امن کے قیام کے لیے عالمی طاقتوں کو بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ طالبات نے بتایا کہ وہ دونوں اب گہری دوست بن چکی ہیں۔ خیال رہے کہ موزون الملیان سے ملالہ یوسفزئی کی پہلی ملاقات تقریباً دو سال قبل اردن کے ایک مہاجر کیمپ میں ہوئی تھی۔ سترہ سالہ موزون نے ملالہ کے ساتھ ملاقات پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں تعلیم کی بات کرنی چاہیے۔ خاص طور پر کہ کس طرح شامی بچوں کی مدد کی جا سکتی ہے کیونکہ شام میں تعلیم سے محروم بچوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔
موزون کا تعلق شامی شہر درعا سے ہے۔ ان کے خاندان نے 2013ء میں شام چھوڑا تھا۔ یہ لوگ اردن کے دو مختلف مہاجر کیمپوں میں رہے اور اس کے بعد تقریباً تین سال بعد برطانیہ میں آباد ہونے کی ان کی درخواست کو قبول کیا گیا۔ اب موزوں اپنے والدین، دو بھائیوں اور ایک چھوٹی بہن کے ساتھ نیو کیسل میں رہ رہی ہے۔ یہ خاندان تقریباً بیس روز قبل ہی برطانیہ پہنچا ہے۔ ملالہ 2012ء سے برمنگھم میں رہائش پذیر ہیں جبکہ موزون مشرق وسطٰی سے تعلق رکھنے والی ایسی پہلی پناہ گزین ہیں جو کسی مہاجر کیمپ سے برطانیہ منتقل ہوئی ہیں۔ ملالہ کے مطابق انہیں امید ہے کہ نیو کیسل کے باسی موزون کا بھی اسی طرح سے استقبال کریں گے جیسا برمنگھم میں ان کا کیا گیا تھا۔