تحریر : قادر خان یوسف زئی ملالہ یوسف زئی کی پاکستان آمد اور اس پر مختلف حلقوں کی جانب سے ردعمل فطری تھا۔ سوات کی رہائشی ملالہ یوسف زئی بھی ہزاروں پاکستانیوں کی طرح دہشت گردوں کا نشانہ بنی۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ دہشت گردی کا تعلق کسی مذہب یا دین اسلام سے ہرگز نہیں ہے۔ ملالہ یوسف زئی فائرنگ کے واقعے میں محفوظ رہیں اور علاج کے بعد بھی مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے برطانیہ میں ہی رک گئیں۔ چونکہ ایک عالمی نشریاتی ادارے نے دعوی کیا تھا کہ گل کئی ڈائری لکھنے والی دراصل ملالہ یوسف زئی ہیں، اس لئے عالمی شہرت ازخود اس کی گود میں آگری۔ اعتراض پر کہہ دیا جاتا ہے کہ اینا فرینک کی ڈائری کس نے لکھی تھی۔ عالمی اعزازات ملنے کے باوجود ملالہ یوسف زئی کی شخصیت پاکستان میں متنازع بن چکی ہے ۔ ریاست ملالہ کی آمد پر خوش ہے۔ ملالہ اپنے آبائی علاقے گئی وہ خوش ہے ۔ ملالہ تو پاکستان کی شہری ہے ہم تو اپنی قوم و ملک اور بقا و سا لمیت کے دشمنوں کو بھی اپنی پلکوں میں بیٹھاتے ہیں تاکہ مہمان نوازی سے پُر امن پاکستان کا تصور عالمی برداری تک پہنچے۔یوم ِ پاکستان پر بھارتی وفد کی مہمان نوازی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ وہ ایک بہترین مقررہ ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے کسی تقریری مقابلے میں مقررمحفل کو گرما دیتا ہے ۔ بہترین مقررہ ہونے کی صلاحیت رکھنے والی ملالہ کو نوبل ایوارڈ کے علاوہ دیگر ایوارڈ کاملنا متنازع بنا ہوا ہے ۔ اتنے ایوارڈ کسی کو بھی دے دیئے جائیں تو وہ خود بخود دنیا کی 100با اثر افراد میں شامل ہوجائے گا ۔ اہم بات یہ ہے کہ ایسا کیا کیا ہے جو قابل فخر ہو اگر نوبل ایوارڈ کا ملنا اور پاکستان کا نام روشن کرنا ہی قابل توجہ ہے تو سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام کو کیا کہیں گے ۔اس کو تو دنیا کی 36 یونیورسٹیوں نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں ، 22 ممالک کے اعلیٰ اعزازات جن میں اردن کا نشان استقلال، وینزویلا کا نشان اندرے بیلو، اٹلی کا نشان میرٹ، ہاپکنز پرائز، ایڈمز پرائز، میکسویل میڈل، ایٹم پرائز برائے امن، گتھیری میڈل، آئن اسٹائن میڈل اور لومن سوف میڈ ملے ہیں۔ پھرقادیانی مذہب سے تعلق رکھنے والے کے نام سے اوپن یونیورسٹی کا ایک کلیہ و اسکالر شپ مختص کرنے پر اعتراضات کو کیا نام دیں گے ۔ ملالہ کے ساتھ انعام کا اصل شریک حقدار’ بچپن بچائو اندولن’ کے روح رواں کیلاش ستیارتھی کی تنظیم نے 80ہزار بچوں کو سڑک مزوردی سے ہٹا کر تعلیم کے حصول کے لئے مدد کی تھی، لیکن ملالہ نے کیا کیا تھا۔
بڑی آسانی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ ملالہ نے اُس وقت انتہا پسندوں کے خلاف آواز اٹھائی جب پورے پاکستان میں اُن کا کوئی نام نہیں لے سکتا تھا۔ لیکن اُس وقت صرف عوامی نیشنل پارٹی کے جتنے رہنمائوں اور کارکنان شہید و زخمی ہوئے اور انتہا پسندوں کے خلاف آواز اٹھائی ان کا ذکر کیوں نہیں کیا جاتا ۔کیلاش ستیارتھی کو نوبل ایوارڈ میں ملنے میں 24برس لگے لیکن ملالہ کو کتنے برس لگے ۔ کہتے ہیں کہ ملالہ زندہ بچ گئی یہی اُس کی غلطی تھی ۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ایسا سوچا بھی جائے ۔ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہے۔ ہم شدت پسندی کے ہاتھوں شہید ہونے ہونے والوں کے بجائے اُن کا ذکر کرلیتے ہیں جو نا مساعد حالات میں عالمی اداروں کا توجہ کا مرکز بھی بنی اور انہوں نے بھی قوم کا نام روشن کیا لیکن ان کے ساتھ دوہرا معیار سمجھ سے بالاتر ہے۔ مجھے فخر ہے تو آرمی پبلک اسکول کے اُن شہید و غازی بچوں و بچیوں پر جو پاکستان کے سب سے بڑے دہشت گردی کے واقعے کا شکار ہونے کے باوجود آج بھی پاکستان میں امن کے نام پر تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
کیا آپ سوات کی مزیدبہادر بیٹوں کو جانتے ہیںجنھوں نے اپنی قوم کا نام روشن کیا ۔ سوات کی خاتون آہن مہر النسا اور ان کے شوہر مرد آہن مہر علی، نے انتہا پسندوں کے سامنے جھکنے سے انکار اور بار بار کی دھمکیوں سے خوف زدہ ہونے کے بجائے ڈٹ کر کھڑی ہوگئیں تھی۔ انتہا پسندوں کی جانب سے جب ان کے گاؤں پر حملہ کیا گیا تو خاتون آہن مہر النسا نے کلاشنکوف سے 6انتہا پسندوں کو ہلاک اور دو کو زخمی کردیا، لیکن اپنا گھر نہیں چھوڑا۔ ”خویندو جرگے”(خواتین کا جرگہ یعنی بہنوں کی کونسل)کی بنیاد ڈالنے والی بہادر خاتون تبسم عدنان کو اقوام متحدہ نے ”حوصلہ مندخاتون”کا عالمی ایوارڈ دیا۔ خویندو جرگہ یعنی بہنوں کی کونسل کے نام سے ایک این جی او بنائی جو ہفتہ وار بنیادوں پر خواتین کے مسائل کو دیکھتا تھا، ان مسائل میں غیرت کے نام پر قتل، خواتین پر تیزاب کے حملے، اور ”سوارا”جیسی رسم، یعنی کسی جرم یا معاہدے کے بدلے خواتین کو دیئے جانے والی قبیح روایات کے خلاف آواز اٹھائی، تبسم عدنان کو نیلسن مینڈ یلاگارسا مشیل انوویشن ایوارڈ لاطینی امریکہ کے ملک کولمبیا کے دارالحکومت بوگوٹا میں دیا گیا۔تبسم عدنان نے میں امریکہ محکمہ خارجہ کی جانب سے سیکرٹری آف اسٹیٹس انٹر نیشنل ویمن آف کریج کا ایوارڈ بھی حاصل کیا ہے۔
سوات کی ایک اور بہادر خاتون مسرت زیب کو بھی کوئی نہیں جانتا۔ انھیں بھی فراموش کردیا گیا کہ کون سی مسرت زیب؟۔ یہ وہ مسرت زیب ہے جس نے کئی خواتین کو انتہا پسندوں کے جنگل سے چھڑایا تھا۔ مسرت زیب کے علاوہ سوات کی ایک اور بیٹی حدیقہ بشیر کوایشین گرلز ایمبسڈر کا ایوارڈ دے کر مقرر کیا گیا۔حدیقہ بشیر نے14سال کی عمر میں نویں جماعت کی طالبہ تھی اور سوات میں کم عمر ی کی شادی کے خلاف مہم چلا کر کئی کم سن لڑکیوں کی شادیاں رکوائی۔ امریکا میں محمد علی انٹرنیشنل ہیومینیٹیری ایوارڈ حاصل کرنے والی حدیقہ بشیر پہلی پاکستانی خاتون ہیں، جنھیں یہ اعزاز دیا گیا۔ پشتون معاشرے میں کم عمری کی شادی کے خلاف، کم عمر لڑکی کی جدوجہد اور وہ بھی سوات جیسے علاقے میں انتہائی بہادری جرات کا عملی مظاہرہ ہے، حدیقہ بشیر پہلی پاکستانی ایشائی خاتون ہیں جنھیں کم عمر کی شادیوں کی خلاف مہم میںعالمی ایوارڈ ملا۔قلم سے جہاد کرنے والی طلعت اخلاق احمد معروف شاعرہ، افسانہ نگار اور کئی کتابوں کی مصنف ہیں، یہ بھی سوات کی بہادر بیٹی ہے جنھیں اپنی پہلی ہی کتاب ‘گم شدہ سر’ پر پروین شاکر ایوارد سے نوازا گیا۔ سوات کی بیٹی نجمہ رانی جو گزشتہ قریب12 سال سے سوات بھر کی خواتین کو مفت دستکاری، سلائی اور کڑھائی کی تربیت دے رہی ہیں۔انہوں نے کم وبیش 16 ہزار بچیوں اور خواتین کو عملی دستکاری کی تعلیم دی ہے۔ وہ اپنے دستکاری سنٹر میں کپڑوں کی سلائی کٹائی کے علاوہ، کڑھائی، اون سے سویٹر بنانا، سواتی چادر کی گلکاری اورکشیدہ کاری کے ہنر سکھاتی ہیں۔ ان کے علاوہ ان گنت بہن بیٹیاں ہیں ۔ ان سب میں ایک بات مشترکہ ہے کہ انہوں نے پہلے جدوجہد کی ۔ اُسی شدت پسند معاشرے میں جس میں ملالہ اور اس کے والد رہتے تھے۔
میں نے سوات کی بہادر بیٹوں کا اس لئے ذکر کیا کیونکہ ملالہ کا تعلق سوات کی سرزمین سے ہے ۔ ان بہادر بچیوں کو انٹرنیشنل ایوارڈ ملے ہیں تو ان کے کارنامے کوئی ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ انہیں پاکستان میں سول اعزازات سے محروم رکھا گیا۔ عالمی ایوارڈ ملنے سے پہلے انہوں نے ایسا کر دکھایا جس کو مثال بنا کر پیش کیا جاسکتا ہے۔ سوات کے علاوہ اگر پاکستان کی لاتعدادبہادر بیٹوں کا ذکر کرنا شروع کروں تو ملالہ کا نام دور تک نظر نہیں آئے گا ۔پاکستان کی مملکت کو سوات کی اُن بیٹیوں کو بھی زیادہ عزت اور قابل فخر بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے جو آج بھی سوات ، فاٹا ، بلکہ پورے خیبر پختونخوا سمیت پاکستان بھر میںمیں تمام تر مشکلات کے باوجودملک و قو م کے لئے باعث ِ فخر ہیں۔ ملالہ ہمارے ملک پاکستان آئی ۔ ان کی مہمان نوازی اور سیکورٹی ریاست کی ذمے داری تھی ۔ جو ریاست نے پوری کی۔
تعلیم مکمل ہونے کے بعد واپس آتی ہیں تو بھی اُن کی سیکوٹی زیادہ رکھی جائے۔ وہ پاکستان کی شہری ہیں۔ جس طرح پاکستان کی وزیر اعظم بننے کی خواہش سے ہاتھ اٹھالیا ہے ۔ ممکن ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ بہت سارے معاملات سے بھی پردہ اٹھالے ۔ لیکن برائے مہربانی زبردستی مسلط کرنے کی کوشش نہ کی جائے او ر کہلوا جائے کہ یہ قوم کی بیٹی ہے ۔ میں بھی اس قوم کا حصہ ہوں اور میں ببانگ دہل کہتا ہوں کہ ملالہ میری بیٹی نہیں ہے۔ میںاُس کو قوم کی بیٹی کہوں گا جب تاج برطانیہ نے افغانستان میں بلا سبب لشکر کشی کی تو وہ بھی ایک ملالئی تھی جس نے اپنے ڈوپٹہ کو جھنڈا بنا کر بندوقوں کے آگے سینہ سپر ہوئی اور دنیا کی مضبوط فوج کو مار بھگایا۔ اگر ملالہ بھی عالمی فورم کے با اثر شخصیت بن جانے کے بعد استعماری قوتوں و غاصبوں کے خلاف آواز ِ حق اٹھا کر ایسا کوئی حقیقی کارنامہ کر گذرتی ہے تو امت مسلمہ کی بیٹی قرار پائی گی صرف کسی پختون یا پاکستانی قوم کی نہیں۔۔ راقم کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ ہمیں قوم کی اُن حقیقی قابل فخر اور دختران پاکستان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جو قوم کے ماتھے پر عزت کا اصل جھومر ہیں۔