سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایسی دوا بنائی جس کی محض ایک خوراک کے ذریعے ہی ملیریا کا علاج ممکن ہے۔
سائنس دانوں نے ابتدائی طور پر اس دوا کا چوہوں پر تجربہ کیا اور تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ایک مرتبہ دوائی کے استعمال کے بعد آئندہ 30 دنوں تک ملیریا کے انفکیشن سے بچا جا سکتا ہے۔
اس نئی دوائی کا کیمیکل کمپاؤنڈ ملیریا کے جسم میں خون کے بہاؤ سے ساتھ پھیلنے سے پہلے جگر میں ہی بیماری کے جراثیم سے مقابلہ کرتا ہے۔
محققین پرامید ہیں کہ ان کی تحقیق طبی جریدے نیچر میں شائع ہو گی اور اس سے عوام کو ایک نئی دوائی تک رسائی مل سکے گی۔
انسانوں میں مچھر کے کاٹنے سے ملیریا پھیلتا ہے اور ایک اندازے کے مطابق دنیا کی نصف آبادی کو ملیریا ہونے کا خدشہ ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق سنہ 2015 میں ملیریا کے 21 کروڑ 40 لاکھ نئے کیسز سامنے آئے ہیں جن میں چار لاکھ 38 ہزار افراد ملیریا کے وجہ سے موت کا شکار ہوئے۔
کمبوڈیا اور تھائی لینڈ کی سرحد کے علاقوں میں ملیریا کی ایک ایسی قسم بھی پائی جاتی ہے جس نے تمام ملیریا سے بچاؤ کی ادویات کے خلاف مدافعت پیدا کر لی ہے۔
انھوں نے ایک ایسا اینزائم تیار کیا جس نے جگر میں موجود ملیریا کے جراثیم پر حملہ کیا۔
امریکی یونیورسٹی ایم آئی ٹی اور ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین پر مشتمل ٹیم نے لائبریری میں ایک لاکھ سے زائد نئے کیمکل کمپاونڈ کا جائزہ لیا۔
وہ موجودہ ادویات کے مقابلے میں کسی نئے طریقے سے علاج کا طریقہ تلاش کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے ایک ایسا اینزائم تیار کیا جس نے جسم میں بڑھنے اور نظامِ خون میں شامل ہونے سے پہلے ہی جگر میں موجود ملیریا کے جراثیم پر حملہ کیا۔
ریسرچ ٹیم کے سربراہ نے امید ظاہر کی ہے کہ اس تحقیق کی مدد سے آئندہ برسوں میں ملیریا کے مقابلے کے لیے بہتر دوا تیار کی جا سکتی ہے۔ اس تحقیق کے لیے مالی معاونت بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے فراہم کی ہے۔
لندن سکول آف ہائیجین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن سے وابستہ پروفیسر ڈیوڈ بیکر کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے نتائج بہت حیران کن ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’ملیریا کے لیے ایک خوراک کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے علاج معالجے کی لاگت کم ہو گی اور علاج نامکمل چھوڑ دینے والے مسائل کا بھی خاتمہ ہو سکے گا۔‘