برطانیہ (جیوڈیسک) برطانیہ کے سابق آرمی چیف نے فوج میں ملیریا کے خلاف متنازع دوا کے استعمال کی اجازت دینے پر معذرت کی ہے۔ لارڈ ڈینٹ کا کہنا ہے کہ وہ بذات خود اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ لاریم دوا کے دماغ پر اثرات کسی ’آفت‘ سے کم نہیں ہیں۔
انھوں نے تسلیم کیا وہ خود ملیریا سے بچنے کے لیے لاریم استعمال نہیں کرتے۔
فوج کے سابق سربراہ لارڈ ڈینٹ نے کہا کہ اُن کے بیٹے نے یہ دوا استعمال کی تھی جس کے بعد وہ شدید ’دباؤ‘ کا شکار ہو گیا تھا۔
وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ ’تعینات افواج کی اکثریت کو پہلے ہی سے لاریم کا متبادل فراہم کر دیا گیا ہے۔‘
لارڈ ڈینٹ نے بتایا کہ نوے کی دہائی میں افریقہ جانے سے پہلے ملیریا کے علاج کے لیے اُن کے بیٹے کو لاریم کی دو خوراکیں دی گئیں جس کے بعد وہ شدید دماغی مسائل کا شکار ہو گیا۔
انھوں نے بتایا کہ اُن کا بیٹا اُس وقت فوج میں نہیں تھا لیکن اپنے والد کے فوجی ڈاکٹر کی تجویز پر ان کو لاریم دی گئی تھی۔
گو کہ فوج میں اسے ملیریا سے بچنے کی اہم دوا کے طور پر استعمال نہیں کیا جاتا لیکن وزارتِ دفاع کے ڈاکٹروں نےاپریل 2007 سے مارچ 2015 کے دوران 17 ہزار فوجیوں کو لاریم تجویز کی تھی۔
لارڈ ڈینٹ سنہ 2006 سے 2009 کے دوران فوج کے سربراہ تھا۔ انھوں نے کہا کہ اس دوا کے بہت زیادہ منفی اثرات ہیں جن میں ڈپریشن اور خودکشی کے خیالات بھی شامل ہیں۔
انھوں نے کہا کہ بطور فوج کے سربراہ اس مسئلے کو ترجیہی بنیاد پر تسلیم نہ کرنے پر وہ اُن فوجیوں سے جنھیں لاریم دی گئی ’معافی مانگنا‘ چاہتے ہیں۔
جب اُن سے یہ پوچھا گیا کہ اُن کے دور میں لاریم دوا زیادہ کیوں تجویز کی گئی تو انھوں نے کہا کہ اُس وقت تک وزارتِ دفاع اس نتیجے پر نہیں پہنچی تھی کہ آیا لاریم زیادہ فائدہ مند ہے یا نقصان دہ۔
ایک برطانوی فوج نے بتایا کہ سنہ 200 میں سیئرا لیون کے دورے کے وقت انھیں لاریم دی گئی اور وہ ابھی تک اس دوا کے منفی اثرات کو محسوس کرتے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ ’اس کا اثر فوری تھا۔ میں میلا اور پرتشدد ہو گیا تھا اور میں اس کا ذمہ دار اس دوا کو ٹھہراتا ہوں۔‘
لاریم دوائی بنانے والی ادویات ساز کمپنی روش کا کہنا ہے کہ وہ ’مستقبل میں بھی وزارتِ دفاع کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنائے گی کہ لاریم کی تجویز سے پہلے اس کے بارے میں مکمل معلومات میسر ہوں۔‘