تحریر: علی عمران شاہین ملائشیا سے مسلح افواج کے دستے اپنے دوست سعودی عرب کے دفاع کے لئے سرزمین حرمین شریفین پہنچ گئے۔ خبر سن اور پڑھ کر تن بدن میں ایک ہیجان سا بپا ہو گیا کہ ملائشیا ایسے ملک کاآخر سعودی عرب سے کون سا ایسا مفاد وابستہ ہے کہ وہ اس کے لئے خون پیش کرنے کو تیار ہو گیا۔؟ ملائشیا میں حکومت کے حصول کے لئے لڑتی آخر کسی سیاسی جماعت کو یہ خیال کیوں نہیں آ رہا کہ ہم بھی حکومت کے اس اقدام کی مخالفت کاشور مچائیں، سیاست چمکائیں، سربازار تماشا لگائیںاور دنیا کو اپنا آپ دکھائیں ۔ پارلیمنٹ کا اجلاس بلائیں اور پھر اول تا آخر دوستی و محبت میں ڈوبے اور سب سے بڑے محسن سعودی عرب کے خلاف وہ زہر اگلیں کہ جو اپنے بدترین دشمنوں کے خلاف بھی اگلنے کا نہ کبھی کسی کو خیال آیااورنہ کبھی اس طرف دھیان گیا۔
سعودی عرب نے تو ملائشیا پر کبھی کوئی احسان بھی نہیں کیا۔کوئی سال بھر پہلے مفت میں ڈیڑھ ارب ڈالر کا تحفہ دے کر معیشت کی ڈوبتی نیا کو بھی نہیں بچایا۔ اس کے 20لاکھ شہریوں کو کوئی روزگارنہیں دیا۔ اس کے دفاع کی بنیاد،اس کا ایٹمی پروگرام نہ شروع کروایا، نہ آگے بڑھایا اور نہ ہی عالمی اداروں کی مار اور پابندیوں سے بچایا۔ملائیشیا کو تو اس سلسلے میں کسی بھی چیز کی ضرورت نہ تھی کہ اس پر تو رب تعالیٰ اتنا مہربان ہے کہ دنیا کے نقشے پر یہ چھوٹا ساملک اب دنیا کی بڑی معاشی طاقتوں میں شمار ہوتا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں واقع ملائشیا کہنے کو تو ہمارے وطن عزیز کی طرح برطانیہ سے ہی آزاد ہوا۔
مہینہ بھی اگست کا تھا البتہ تاریخ 31اور سال 1957ء تھا۔ اس ملک کا رقبہ 3لاکھ 29ہزار 8سو 47مربع کلومیٹر ہے تو آبادی لگ بھگ ساڑھے تین کروڑ۔ یہاں رہنے والے لوگوں میں محض 62فیصد مسلمان ہیں لیکن حکومت نے اسلام کو ہی سرکاری مذہب قرار دے رکھا ہے۔( کہ انہیں سیکولرازم سے کوئی سروکار نہیں) اللہ کی شان دیکھئے کہ جس طرح سعودی عرب کی جیسے جیسے اسلام سے وابستگی گہری اور مضبوط ہوئی،ویسے ویسے اس پر اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوا، کچھ ایسی ہی صورتحال ملائشیا کی ہے، جس نے ترقی کے بام عروج کو چھونے کے باوجود ہر گزرتے دن کے ساتھ اسلام کے ساتھ تعلق مزید تیز کرنا شروع کر رکھا ہے۔مارچ 2015میں ملک کی مضبوط اپوزیشن پارٹی اسلامی جماعت آف ملائشیا( PAS )نے ساری دنیا کو اس وقت حیران کر دیا جب اس نے قومی اسمبلی میں مطالبہ کیا کہ ملک میں شرعی حدود کو قائم کر دیا جائے۔ PAS نے اس حوالے سے یہ تجویز دی کہ ملک کی ریاست کیلنٹان میں حدود کا نفاذ سب سے پہلے کیاجائے جہاں کے لوگ اس حوالے سے سب سے زیادہ مطالبہ کرتے آ رہے ہیں۔ ملائشیا کی اس ریاست کیلنٹان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس نے 2006ء میں اللہ سے جنگ والے معاشی نظام یعنی سود کو ختم کرنے کے لئے سب سے پہلے قدم اٹھایا تھا اور ریاست میں کاغذی نوٹوں کے ساتھ سونے اور چاندی کے سکے رائج کر کے اسلامی روایت کی بنیاد ڈالی تھی۔ 2010ء میں دبئی کے ادارے ورلڈ اسلامک منٹ (ٹکسال) نے بھی اس کرنسی کو باقاعدہ طور پر تسلیم کر لیا تھا۔ 25اگست 2011ء کو پہلی بار ریاست کی جانب سے سرکاری طور پر زکوٰة سونے اور چاندی کی شکل میں جمع کر کے تقسیم کی گئی۔ یہ بات بھی انتہائی دلچسپی کی حامل ہے کہ ملائشیا کی 9ریاستوں میں سے وہ 4بڑی ریاستیں جہاں مسلمانوں کی بھاری اکثریت ہے، یعنی کیلنٹان، ترینگانو، کیراہ اور جوہور میں باقی ملک کے نظام سے ہٹ کر ہفتہ اور اتوار کے بجائے جمعة المبارک کی چھٹی ہوتی ہے تاکہ مسلمانوں کو عبادات میں آسانی رہے۔
Saudi Arabia
ایک ہی ملک میں دو الگ الگ چھٹیوں کے نظام کے باوجود نہ تو ملکی معیشت کو کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی کوئی نظام اور عوام میں ٹکرائو ہے۔ ملائشیا ویسے تو ابھی تک ان ممالک میں شامل نہیں جنہوں نے قادیانیوں کو کافر قرار دے رکھا ہے لیکن ان ممالک سے بڑھ کر اقدام کرتے ہوئے ملائشیا نے قادیانیت کی تبلیغ و تشہیر پر اتنی سخت پابندی عائد کر رکھی ہے جس کا تصور بھی شاید ہمارے ہاں ممکن نہ ہو۔ ملائشیا نے تو اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر قادیانیت کے ساتھ گزشتہ سال توہین صحابہ کے مسئلہ پر بھی سخت قانون بنا کر ایک نئی مثال قائم کر دی کہ جو ایسا کرے گا اس کی ہمارے ملک میں کوئی جگہ نہیں۔۔ آج کے جدید ملائشیا کی پہچان اگر ایک طرف اس کا ٹوکیو کو مات دیتا دارالحکومت کوالالمپور اوردنیا بھر میں سب سے بلند جڑواں پیٹروناس ٹاور ہیں تو آج اس ملک کی دوسری عالمی شناخت سرکاری سرپرستی میں بننے اور چلنے والی قدم قدم پر موجود پرشکوہ، خوبصورت اور عالی شان مساجد ہیں جن کی مثال سارے عالم میں کہیں نہیں ملتی ۔یہاں کی سبھی مساجد میں خواتین کی نماز کے لئے ہر جگہ خصوصی اہتمام ہے۔ گزشتہ سال 2014ء ماہ مئی میں ایک ٹی وی چینل نے اس وقت ساری دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا جب اس نے ترغیب نماز کیلئے اذان کا سلسلہ شروع کیا تو اذان کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ہر طرح کی مصروفیات چھوڑ کر نماز کیلئے جاتا دکھایا جاتا ہے۔ یوں اس طرح کی تبلیغ سے نماز کا اہتمام مزید آسان ہو گیا۔ ملائشیا کی فی کس آمدن پاکستان سے 10گنا زیادہ ہے،حالانکہ ان کے ہاں تو کوئی تیل کی دولت بھی نہیں ہے لیکن ان کے ملک میں اللہ کی رحمت کے سائے پھیلتے ہی نظر آتے ہیں۔ وہ کسی سے معاشی بھیک نہیں مانگتے۔
Malaysia
کسی کے سامنے سرمایہ کاری کیلئے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ اس ملائیشیا کا ایک اور رخ بھی دیکھ لیجئے کہ جس نے 25اپریل 2015ء کو دنیا کی مظلوم ترین مسلم قوم یعنی برمی مسلمانوں کے حق میں سعودی عرب اور ترکی کے بعد آواز بلند کی۔ ملائشیا کے وزیر خارجہ عنیفہ امان نے کہا کہ مظلوم روہنگیا مسلمان ملائشیا، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا میں بھاگ بھاگ کر پناہ لے رہے ہیں۔ یہ مسئلہ برما کا داخلی مسئلہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ برما کو یہ مسئلہ حل کرنا ہو گا ۔اس مسئلہ کو تنظیم آسیان کی سطح پر حل کرنے کی ضرورت ہے،پھرساتھ ہی بتایا کہ میں نے خود برمی حکومت سے بات کی ہے اور زور دیا ہے کہ برما یہ مسئلہ حل کرے تو ملائشیا اس کا بھرپور ساتھ دے گا۔ جی ہاں! یہ وہی ملائشیا ہے جس نے اپنے ہاں ڈیڑھ لاکھ مظلوم برمی مسلمانوں کو بھی پناہ دے رکھی ہے۔
یہ سطریں تحریر کرتے سوچوں کے دھارے بار بار اسی ہفتے کی اس خبر کی طرف جاتے تھے ، جس میں بتایا گیا تھا کہ برما کے آرمی چیف نے اسلام آباد میں پاکستانی وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کی ہے۔ یعنی ہم برمی مسلمانوں کے زخموں پر مرہم تو نہ رکھ سکے ،نہ ان کے لئے زبان سے کوئی الفاظ نکال سکے، البتہ ان کے قاتلوں سے ضرور مسکراہٹوں اور محبتوں کے تبادلے کئے۔ اسلام سے تعلق مضبوط کرتا ،دوستوں سے دوستی آگے بڑھاتا آج کاملائشیا سعودی عرب کا بازوئے شمیشر زن بن کر میدان میں اتر رہا تھا تو ہمارے ہاں کی سب سے بڑی خبر یہ تھی کہ وفاقی وزیر پرویز رشید نے اسلامی مدارس کو جہالت کی یونیورسٹیاں قرار دیا ہے۔ اذان اور آخرت کے تصور کا مذاق اڑایا ہے اور اس تقریب میں بیٹھے سبھی لوگ ان کی باتوں پر قہقہے بلند کر رہے تھے۔
اول تا آخر سعودی عرب کے احسانات میں ڈوبے ہونے کے باوجود ہماری جانب سے سب کچھ بھلا کر اب معاملہ ہی دفن کر دیا گیا ہے کہ ہم سے تو سعودی عرب نے کچھ بھی نہیں مانگا۔ ویسے تو ہمارے ہاں ترکی اور ملائشیا کو رول ماڈل قرار دینے اور کہنے والوں کی کمی نہیںلیکن ان کی اسلام سے محبت اور سعودی عرب سے دوستی کی ادائیںدیکھ کر ان دونوں ممالک کی تعریفیں کرنے والے اب منہ میں گھنگھنیاں ڈالے ٹکر ٹکر دیکھ رہے ہیں کہ کہیں کوئی اب ان کی پچھلی باتوں پر گرفت ہی نہ کر لے۔ آخر کیوں؟