فرانس (اصل میڈیا ڈیسک) ماہرین کا کہنا ہے کہ مالی میں فرانسیسی افواج کی تعینات سے ملک میں سکیورٹی کی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ عوام بھی غیر ملکی افوج کے حق می نہیں تھے۔
فرانس کی طرف سے مالی میں اپنے فوجی مشن کے ختم کرے کے بعد اس افریقی ملک کیفوجی حکومتکو اسلامی انتہا پسندی سے نمٹنے کا مشکل کام خود کرنا پڑے گا۔
مالی کی فوجی حکومت پر علاقائی تنظیم ایکواس کی پابندیوں کی وجہ سے اسے پہلے سے ہی مشکلات کا سامنا ہے جبکہ فرانس کے فوجی مشن کے اختتام کے بعد اب سے اسلامی انتہا پسندی کے خلاف کارروائی میں بھی خود ہی کلیدی کردار ادا کرنا پڑے گا۔
مالی میں اسلامی انتہا پسندی کی وجہ سے نہ صرف اس ملک بلکہ ساحل ریجن میں ایکشورش برپا ہے۔ اس کے اثرات ہمسایہ ممالک نائجر اور برکینا فاسو میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
سن دو ہزار تیرہ میں اسلامی انتہا پسندوں کی طرف سے شمالی مالی میں طاقت جمع کرنے کے بعد وہاں فرانسیسی فورسز تعینات کر دی گئیں تھیں۔ عالمی برادری کی طرف سے مینڈیٹ ملنے کے بعد گزشتہ ایک دھائی تک ان شدت پسندوں کا مقابلہ کیا۔ تاہم اب تاریخی شہر ٹمبکٹو سے ان غیر ملکی افواج کا انخلا مغربی افریقی ملک مالی کی عبوری حکومت کے لیے ایک چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔
مالی میں فوجی بغاوت کے بعد وہاں ایک کٹھ پتلی سول حکومت قائم کر دی گئی ہے تاہم علاقائی سطح پر اس حکومت پر اعتماد کا فقدان پایا جاتا ہے۔ علاقائی تنظیم اکنامک کمیونٹی آف ویسٹ افریقن اسٹیٹس (ایکواس) کی پابندیوں کے باعث مالی کو شدید دباؤ کا سامنا ہے جبکہ اسے اقتصادی سطح پر مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
مالی کے وزیر برائے خارجہ امور عبداللہ دیوب نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ بماکو حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی انتخاب نہیں کہ وہ اس امر پر نظر ثانی کرے کہ اس نے اپنی سکیورٹی کو کس طرح یقینی بنانا ہے۔
فرانسیسی فورسز کے انخلا پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ بات قابل فہم ہے کہ مالی ملک میں امن کی خاطر غیر ملکی افواج پر ہمیشہ کے لیے انحصار نہیں کر سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ذمہ داری ملک کے سکیورٹی اداروں نے خود ہی اٹھانا ہے تاہم اس کے لیے ایک جامع حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے، جس کے لیے عالمی مشاورت ناگزیر ہو گی۔
گھانا کے دارالحکومت عکرہ سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی کے ماہر موتارو مختار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ فرانسیسی افواج کے انخلا سے مالی کے عوام خوش ہے کیونکہ زیادہ تر کی خواہش تھی کہ یہ فوجی ملک سے نکل جائیں۔
اس فوجی مشن پر تنقید کرتے ہوئے مختار نے مزید کہا کہ دراصل مالی میں فرانسیسی افواج کی نو سالہ موجودگی کے باعث ملک کی سکیورٹی قدرے زیادہ خراب ہوئی اور اب یہ ملک ایک مشکل صورتحال کا شکار ہے۔
ماہرین کے مطابق ساحل ریجن میں سرگرم انتہا پسندوں نے طاقت جمع کی ہے جبکہ مالی کی فورسز ان جنگجوؤں کے خلاف فعال کارروائی کے قابل نہیں ہیں۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے پیر کے دن بماکو کا دورہ کرنا تھا تاہم کووڈ انیس کی بگڑتی صورتحال کے تناظر میں انہوں نے آخری وقت میں یہ طے شدہ دورہ منسوخ کر دیا۔ یہ طے تھا کہ ماکروں اس دورے کے دوران مالی کے عبوری رہنما کرنل عاصمی گوئٹا سے ملاقات کریں گے۔
گوئٹا نے اگست سن دو ہزار بیس ملک کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ اس پیش رفت پر نہ صرف مالی کے عوام کی طرف سے احتجاج کیا گیا بلکہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر بھی مذمت کی گئی۔
فرانس اور امریکا کو خدشات ہیں کہ مالی کی نئی حکومت روس کی طرف جا سکتی ہے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ روسی پرائیویٹ عسکری گروپ واگنر مالی میں اپنے قدم جمانے کی کوشش میں ہے۔
گزشتہ ہفتے ہی امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے کہا تھا کہ وہ مالی میں اپنے سکیورٹی اہلکار تعینات کر سکتا ہے جبکہ ان خدمات کے عوض بماکو حکومت اسے ماہانہ دس ملین ڈالر کی ادائیگی کر سکتا ہے۔
اس تناظر میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ واگنر گروپ مالی میں استحکام لانے کے بجائے اسے مزید عدم استحکام کا شکار بنا دے گا۔ اس پرائیویٹ روسی عسکری سکیورٹی کمپنی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی پامالیوں کا بھی ارتکاب کرتی ہے۔
تاہم عبداللہ دیوب نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ملک کی نئی سکیورٹی پالیسیوں کے بدولت ملک میں امن و سلامتی کی صورتحال بہتر ہو گی۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں انہوں نے مزید کہ ان کا ملک ہمت نہیں ہارے گا بلکہ مشکل حالات پر قابو پانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔