تحریر : واٹسن سلیم گل چند روز قبل ٹی وی چینلز پر باغ ابن قاسم پارک کراچی کو بحریہ ٹاؤن کے حوالے کئے جانے سے متعلق خبریں چل رہی تھیں کہ سندھ حکومت اس باغ کو دیکھ بھال کے لئے بحریہ ٹاؤن کے حوالے کر رہی ہے۔ میرا آج کا موضع باغ ابن قاسم نہی ہے۔ جو لوگ کراچی کے متعلق زیادہ نہی جانتے ان کو بتادوں کے کراچی میں کلفٹن کے ساحل سمندر کے کنارے یہ 130 ایکڑکے رقبے پر پھیلا ہوا یہ باغ اگر اپنی لش پش حالت میں ہو تو پورے ایشیا میں سمندر کے کنارے کوئ باغ اتنا خوبصورت نہی ہے۔ جتنا کہ یہ باغ ہے کراچی بھی میرا آج کا موضع نہی ہے۔
ایم کیو ایم نے سندھ حکومت کے اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے کہ سندھ حکومت کو یہ اختیار ہی نہی ہے کہ وہ اس باغ کے متعلق کوئ فیصلہ کرسکے کراچی کے مئیر وسیم اختر کا کہنا ہے کہ پارک کی زمین کے ایم سی کی ہے اور اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف کراچی کے مئیر کے پاس ہے۔ اس لئے مئیر سے قانونی اجازت لئے بغیر یہ پارک کسی کے بھی حوالے نہی کیا جاسکتا۔ میرا آج کا موضع ایم کیو ایم بھی نہی ہے بلکہ میرا آج کا موضع جناب ملک ریاض صاحب ہیں۔ ملک ریاض جو کہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ہیں انہوں نے سندھ حکومت کو یہ پیشکش کی تھی کہ وہ باغ ابن قاسم پارک کے علاوہ کراچی کے مضید 10 پارکس کی تزنین و آرائیش کا زمہ لیتے ہیں اور وہ حکومت سے ایک پیسہ لئے بغیر کراچی کے دس پارکس کو خوبصورت اور ہرا بھرا کر کے کراچی کی عوام کے حوالے کریں گے۔ میرے لئے بڑی حیرت اور تجُسس کی بات تھی کہ یہ کون شخص ہے جو اپنی جیب سے صرف ایک باغ پر سالانہ 50 کروڑ خرچ کرنے کی بات کر رہا ہے اور اس پر بھی بس نہی مضید 10 پارکس کی زمہ داری قبول کرنے کے لئے تیار ہے مگر حکومت سندھ اور کراچی کی بلدیاتی حکومت کے درمیان نا اتفاقی کی وجہ سے پیچھے ہٹ گیا۔ میرا خیال ہے کہ ملک ریاض پُرسرار شخصیت کا مالک ہے۔ جس کے چاہنے والے بھی ہیں اور دشمن بھی ہیں۔ دو سال میں میٹرک پاس کرنے والایہ شخص جو کہ 70 کی دہائ میں راولپنڈی میں فوج کے ایک یونٹ میں محض ٹیوب ویل آپریٹر تھا۔
آج کروڑ پتی نہی بلکہ ارب پتی بن چکا ہے۔ اس زمانے میں جب پاکستان میں بائیس خاندان جن میں، سہگل گروپ، دادابائ گروپ، ہاشوانی گروپ، میاں محمد منشا کا نشاط گروپ سمیت ان میں کہیں بھی ملک ریاض حسین کا نام و نشان موجود نہی تھا۔ مگر آج اگر پاکستان کے 10 امیر ترین خاندانوں کی فہرست تیار کی جائے تو ملک ریاض صاحب اس فہرست میں ضرور نظر آیں گے۔ ملک ریاض ایک ٹھیکےدار کے گھر پیدا ہوا مگر والد کا کاروبار ٹھپ ہو چکا تھا۔ میٹرک کے بعد کلرک کی نوکری کی ۔پھر فوج کے ایک محکمے میں ایک چھوٹے سے ٹھیکے سے اپنے کام کا آغاز کیا یہ سفر سیٹ لائیٹ ٹاؤن راول پنڈی سے شروع ہوا اور آج ملک ریاض رئیل اسٹیٹ ڈویلپر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اور اس وقت ان کے مختلف پروجیکٹ پر 23 ہزار ملازمین کام کرتے ہیں ۔ بحریہ ٹاؤن کراچی، بحریہ ٹاؤن لاہور، بحریہ ٹاؤن اسلام آباد سمیت بہت سے رہایشی منصوبے ان کی ملکیت ہیں ان کے صاحب کے شوق بھی نرالے ہیں ان کو مہنگی اور کلاسک گاڑیاں جمح کرنے کا شوق ہے ؑلی ریاض کے پاس مرسیڈیز، بی ایم ڈیبلیو، پورشے، فینٹم اور رولس رائیس جیسے گاڑیاں موجود ہیں۔
پراپرٹی بزنس ٹائیکون ملک ریاض امیر کبیر تو ہیں ہی مگر پاکستان کے طاقتور شخص بھی سمجھے جاتے ہیں۔ شاید ہی پاکستان کی کوئ سیاسی جماعت ہو جس کے لیڈر کے ساتھ ملک صاحب کے تعلقات نہ ہوں۔ اس کے علاوہ میڈیا، فوج کے اعلی افسران بھی ملک صاحب کے دوستوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ فلاحی کاموں پر بھی پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں بحریہ ٹاؤن کی جانب سے روزانہ دسترخوان لگائے جاتے ہیں۔ جن پر ہزاروں بھوکے لوگ کھانا کھاتے ہیں۔ وہ بہت سے غریب بچوں کے اسکولوں کی فیس،کتابوں اور دیگر ضروریات کا بھی خیال رکھتے ہیں۔
بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو ملک صاحب پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ ملک صاحب نے فوج کی بہت سی زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے اور وہ عسکری اداروں کو بیوقوف بنا کر اربوں کما رہے ہیں۔ میں یہ بات ماننے کو تیار نہی ہوں کہ کوئ پاکستان میں رہ کر پاکستانی فوج کی زمینوں پر قبضہ کر کے ان کو بیچ دے، بہت سے مقدمات بھی بنے ہیں مگر ابھی تک کوئ ایک بھی الزام ثابت نہی ہوا۔ امیر ہونا کوئ جرم نہی ہے اگر کوئ شخص ایک روپیہ کما کر 25 پیسے بھی فلاحی کاموں پر خرچ کرتا ہے تو یہ بات قابل تعریف ہے۔