کراچی (جیوڈیسک) محکمہ صحت کی غفلت کی وجہ سے ملیر کے مضافاتی علاقوں میں قائم کردہ پچاس بیڈ کے 5 اسپتال آٹھ برسوں سے عوام کو طبی سہولتیں فراہم نہ کرسکے، کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والی اسپتالوں کی عمارتیں زبوں حالی کا شکار ہوگئیں، میمن گوٹھ کا اسپتال شروع نہ ہونے سے کروڑوں روپے کی میڈیکل مشینری ناکارہ ہو گئی، فرنیچر آدھا ٹوٹ گیا اور آدھا چوری ہو گیا، ابرہیم حیدری میں 2009ء سے مکمل ہونے والے 110 بیڈ کے اسپتال میں نہ تو عملہ مقرر ہوا اور نہ ہی کوئی طبی سامان آسکا۔
تفصیلات کے مطابق 2005ء سے 2007ء تک ملیر کے مضافاتی علاقوں گڈاپ، میمن گوٹھ، اولڈ تھانہ ، ریڑھی گوٹھ اور دنبہ گوٹھ میں کروڑوں روپے کے بجٹ سے 50 بیڈ کے اسپتالوں کی عمارتیں تعمیر کی گئی تھیں لیکن محکمہ صحت اور منتخب نمائندوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے کئی سال بعد بھی یہ اسپتال عوام کو سہولتیں فراہم نہ کرسکے۔
اطلاعات کے مطابق میمن گوٹھ میں کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر کیے گئے اسپتال میں کروڑوں روپے کی ڈینٹل مشین، ایکسرے مشین ، الٹرا ساؤنڈ مشین اور دیگر مشینوں سمیت لیبارٹری قائم کی گئی اور قیمتی فرنیچر بھی رکھا گیا لیکن اسپتال کے افتتاح کے مسئلے پر پیپلز پارٹی اور متحدہ کے اختلافات کی وجہ سے وہ اسپتال آٹھ برسوں سے اب تک بند پڑا ہے اور کروڑوں روپے کی مشینری بھی مکمل طور پر ناکارہ ہوچکی ہے، آدھافرنیچر ٹوٹ پھوٹ چکا اور آدھا فرنیچر چوری ہوگیا، عمارت خستہ حال ہوچکی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والے اس اسپتال کے لیے بجلی کا کنکشن تک نہیں لیا گیا،اس بلڈنگ کے برابر میں چلنے والا رورل ہیلتھ سینٹر میمن گوٹھ کی بجلی کے کنڈے پر چلتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق گڈاپ سٹی، اولڈ تھانہ، ریڑھی گوٹھ، دنبہ گوٹھ کے پچاس بیڈ کے اسپتال صرف اور صرف عمارتوں تک محدود ہیں،آہستہ آہستہ چور ان کی کھڑکیاں او ردروازے بھی لے جارہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق 2009ء میں ابراہیم حیدری کے علاقے میں پچاس بیڈ سے اپ گریڈ کرکے 110 بیڈ کے بنائے گئے اسپتال پر کروڑوں روپے خرچ کیے گئے لیکن وہ اسپتال بھی صرف عمارت تک محدود ہوکر رہ گیا۔