نیویارک (جیوڈیسک) عالمی اداروں کی بے بسی کہیے یا عالمی طاقتوں کی ڈھٹائی کہ دنیا بھر میں اب بھی لاکھوں انسان بالخصوص بچے بھوک اور افلاس کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 5 سال سے کمر عمر 30 لاکھ بچے غذائی قلت کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں لیکن بے حسی کا عالم یہ ہے کہ آج سے 22 سال قبل آخری بار 1992ء میں اقوام متحدہ کے تحت اس موضوع پر کانفرنس بلائی گئی تھی جس میں غذائی قلت کا شکار ممالک میں کئی اقدامات تجویز کئے گئے تاہم زیادہ تر صرف کاغذوں پر عملدرآمد کے منتظر رہ گئے۔
ایف اے او کے سربراہ جوس دا سلوا کا کہنا ہے کہ غذائی قلت کے خاتمے کے لئے عالمی سطح پر کی جانے والی کوششیں ناکافی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 16 کروڑ سے زائد بچے غذائی قلت کے باعث اپنی عمر کے مطابق بڑھ نہیں پاتے۔ جسمانی اور ذہنی طور پر پیچھے رہ جاتے ہیں جبکہ تقریباً دس کروڑ بچے کم وزنی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بالآخر عالمی اداروں کو بھوک سے مرتے ان بچوں پر کچھ رحم آ ہی گیا اور اس سلسلے میں اس سال نومبر میں عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس کا موضوع ہوگا “مضبوط عہد کریں کہ صحت مند غذا ہوگی سب کے لئے” لیکن اس کے ساتھ ہی ادارہ صحت نے اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ مختلف ممالک میں سیاسی عدم استحکام غذائی قلت کے خاتمے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ صرف مشترکہ کوششوں اور اخلاص نیت سے ہی اس خوفناک صورت حال پر قابو پایا جا سکتا ہے۔