اس گلوبل ویلج کا اکلوتا مگر ڈانواں ڈول پردھان امریکہ حقیقت میں پاکستان کا دیرینہ دوست ہے یا دشمن ، آقا ہے یا کچھ اور۔۔۔ اگر ہم ا س مصیبت نمارشتے کا درست تعین کرپائیں تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ ہماری آدھی بلائیں یونہی ہی ٹل جائیں۔ گونگھی بہری عوام اس رشتے کی نزاکتوں سے انجان سہی مگربین الاوقوامی تعلقات میں حکمران طبقہ دوستوں اور دشمنوں کی اصیلت اور ان کے اصل چہروں سے اچھی خاصی شناسائی رکھتا ہے۔
اس لیے تو ایوب خان کو کہنا پڑا تھا”Friends not masters ”تاہم ایک بات طے ہے کہ روزاول سے لے کر آج تک جس طرح امریکہ، پاکستان پر اپنی چوہدراہٹ جھاڑتا، اپنی بزرگی جتاتا، ہمارے ہر معاملے میں اپنی ٹانگ اڑاتا بلکہ ٹانگ مارتا، اپنے نام نہاد پیکجز اور ڈیلوں سے ہماری وقتی دل جوئی کرتا اور ہمارے زخموں پر مرہم میں نمک ملا کر لگاتا نظر آتاہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ نے خود کو ہمارے ‘ماموں جان’ کا درجہ دے رکھا ہے۔ یعنی ساری دنیا کے لیے رعب اور دبدبہ رکھنے والا ہمارا نام نہاد، مونس و غم خوار ماما ‘بنا پھرتاہے۔
کیا کہنے ہمارے اگلے پچھلے تمام حکمرانوں کی بصیرت اور وضع داری کے جہنوں نے مامے کی اصیلت سے خوب واقف ہو نے کے باوجو بھی اس کی جی حضوری کرنے میں کبھی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی اور اس سے صدق دل سے ماما تسیلم کرتے رہے ۔ جب جب مامے سام نے آواز لگائی بچہ جمہورا Are you ready to become sacrificial goat? ،تب تب ہم نے یس ماموں کہتے ہوئے صدقے واری جانے اور تھلے لگنے کی حد ہی کر دی ۔ ہر دور میں ہماری بے پناہ گرمجوشی اورخلوص کے بدلے میں موصوف نے ہماری خاطر تواضع اپنے روکھے مزاج اور ٹھنڈی محبت (فلرٹ ) سے ہی کی ہے۔
پتہ نہیں کیوں؟ اپنے ساتھ ہونے والے ہر طرح کے Cheap سلوک کے باوجود ہم اسی تنخواہ پر بصد خوشی یہ رشتے داری نبھاتے آئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آ ج ماما جی ہمارے سر پر ضرورت سے زیادہ سوار نظر آتے ہیں۔ کیونکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ اس کی امداد کی جپھی کے بغیر نہ تو ہمارے بڑوں کی روٹی ہضم ہوتی ہے اور نہ ہی ہم اس قابل ہیں کہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے جیسی بے ادبی اور گستا خی کرنے کی ہمت کرسکتے ہیں۔اور ماما ٹھیک ہی سوچتاہے کہ اس کے ڈالروں پر عیاشیاں کرنے والے بلے اوربلیاں اسے ہی میاوں کیسے کر سکتے ہیں۔
موصوف چاہے اندر ہی اندر انڈیا اور اسرائیل کے ساتھ مل کرہمارے خلاف خباثت کی جتنی بھی انتہا کرلیے، مگریہ سوال ہی پیدانہیں ہوتا کہ اس عظیم بندہ پرور مہربان کے سایہ شفقت کو چھوڑ کر اقتصادی خود انحصاری اور خود کفالت جیسے اوکھے رستے پر چلنے کی نیت کرکے مفت میں ڈالروں والا راستہ کھوٹا کیا جائے۔ چاہے اس کے دل میں ہمارے لیے جتنی بھی کدورت اور کینہ ہے ہمارے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہماری امداد کرتا ہے۔
Hussain Haqqani
موصوف کی مزید گوڈلک یہ ہے کہ وطن عزیزمیں اس کے چاہنے والے اور حمایتوں کی ایک لمبی لائن، اس کی جانثاری میں حسین حقانی اور شکیل آفریدی جیسا رتبہ حاصل کرنے کے لیے بے چین نظر آتی ہے۔کہتے ہیں بچھوکا کا ٹاروتاہے اور سانپ کا کا ٹاسوتاہے جبکہ ما مے کاڈسا اس کی ایک بھڑک پراتحادی بننے کا فیصلہ کرکے ہماری طرح صدابہار کھجل خرابی کے راستے پر نکل پڑتا ہے۔ آج پاکستان کی سلامتی اور معیشت کے سنگین حالت چیخ چیخ کر مامے سام کی دشمنی سے بھی مہنگی پڑنے والی دوستی کا ماتم کرتے نظر آتے ہیں۔
اگرچہ ماما جی کی عقابی نظروں میںہمارا ایٹمی پروگرام، ہمارا اسلامی تشخص،اور ہمارا جغرافیائی وجود اور علاقائی کردار ہمیشہ کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں اس باوجو اس نے کمال مہربانی کرڈالی کہ ہمیں اپنا پارٹ ٹائم اتحادی کم منشی بناڈالا، ڈالروں کی بارش اپنے چاہنے والوں پر کرتا رہا جبکہ حساب پاکستانی عوام کے کھاتے میں لکھتارہا ۔اور چالاکی کی انتہاہے کہ سالہا سال سے ہمیں ہمارے ہی خرچے پر ہائیر کیے ہوئے ہے۔
جب بھی مذاکرات کا ڈھول ڈالا جاتا ہے، توسب اچھا ہے کی دھول بیٹھنے کے بعد پرپتہ چلتا ہے کہ ماماجی ٹبیل ٹاک پر اپنی پوزیشن اور چالاکی کا فائدہ اٹھا تے ہوئے الٹا ہمیں ہی مامو بنا گئے ہیں۔ حالانکہ ایسی حرکتیں نہ کسی اتحادی کو زیب دیتی نہ ہی کسی سفارتی آداب کے زمرے میں آتی ہیں۔ دراصل ہمارے معاملے میں ماما جی دنیا کے کسی قاعدے یا تہذیب کو کم کم ہی خاطر میں لاتے ہیں اس لیے جو جی میں آتاہے ہمارے ساتھ وہی کرگزر تے ہیں۔ ہمیں ایڈاور ٹریڈ کے لارے دیتے ہیں۔
Terrorism
جب کے ان پر عمل ہندوستان کے ساتھ فرماتے ہیں۔ ہماری گزارشات اور ہر قسم کے احتجاج پر سنی ان سنی کرتے ہو ئے جب جی میں آتاہے ہمیں اپنی ڈرون گردی کانشان بنانے سے ذرا بھی نہیں چونکتے ۔ خودہی ہمیں دہشت گردی کے خلاف لڑنے پر شاباش دیتے نہیں تھکتے اور خود ہی ہمارے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کا واویلا بھی کریتے رہتے ہیں۔ اگر ہم اپنے اور مامے کے بیچ 65 سالوںسے چلنے والی سی کلاس،اورفلاپ ون وے لوسٹوری کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اس ناہموار تعلق کا سارا منافع اورسود ہمیشہ ماما ہی ڈکارتا نظر آیا جبکہ ساری ریاضتیں ہمارا نصیب بنی۔
جب جب مامے کی دم پر کسی خودساختہ آفت یا ضرورت کا پیر آیاتب تب اس نے ہمیں گلے لگایا ،ہمارے کندھے پر اپنا بوجھ لادا، اپنا الو سیدھا کیا اور ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے یہ جا اور وہ جا۔۔۔ اپنے ہی اسیٹج کیے وار آن ٹیریر کے تھیڑ میں ہمیں اپنے اتحاد کی سولی پر ایسا چڑھا یاکہ ہمیں سو ارب ڈالر سے زائد کا مالی اور چالیس ہزار سے زائد انسانوں کا جانی نقصان اٹھانا پڑ ا ۔۔۔اور یہ سلسلہ مزید جاری ساری ہے۔ دنیا بھر کے سنگین مسائل کو گھیر گھار کے ہمارے گلے میںڈال کر خود موصوف مال غنیمت کی گٹھری سر پر لادے نکلنے کی تیاریوں میں ہیں۔۔ جبکہ آج بھی ہمیں دن رات ڈومور کی پیٹاں پڑھا کر راضی رکھا جارہا ہے۔
زخم کتنے تیری چاہت سے ملے ہیں ہم کو سوچتے ہیں کہ کہیںتجھ سے مگر جانے دے
مامے کی تمام سابقہ اور موجودہ حرکت وسکنات اور اقدامات سے یہ ثابت ہے کہ وہ اپنے مفادات کے علاوہ کسی کا دوست نہیں۔ لہذا اس کے اور ہمارے بیچ تعلق کا ڈارپ سین یہی بنتاہے ہم بھی اپنے ملکی مفادات کو ہر دوستی اور اتحاد پر سپریم سمجھیں۔ تاکہ دوست کی کھال میں چھپے دشمنوں کی کسی بھی چال کا شکار ہونے سے بچ سکیں۔اپنے ملکی مفادات کو مقدم رکھنے میں ہی ہماری بقاہے۔
کیونکہ اب موصوف کے ہجر میں رونے کے لیے ہمارے پاس بے پناہ مسائل تو ہیں لیکن اس کے وصال میں ہمارے پاس ہارنے کچھ نہیں ہے جبکہ اتارنے کو بے پنا ہ قرض ضرور ہے۔ ۔ لہذا ہم مزید اس کی کوئی مزید خسارہ برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے اس لیے ہاتھ جوڑ کر مامے سے التجا کریں کہ خدارا! مائی باپ بہت ہو چکی اپکے عشق کی بازی میں اب لگانے کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں اس لیے ہمیں معاف کر دیں اور امن سے جینے دیںکہ ہم آپکی ٹھنڈی محبت کا مزید ماتم نہیں کرسکتے۔