اسلام آباد (جیوڈیسک) قومی اسمبلی نے سینیٹ سے منظور کردہ انسداد دہشت ترمیمی بل 2014 کی اتفاق رائے سے منظوری دیدی۔
جمعے کو وفاقی وزیر چوہدری برجیس طاہر نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 میں مزید ترمیم کا بل انسداد دہشت گردی بل 2014ء پیش کیا تو تحریک انصاف کے رکن ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ بل پر ہمارا کوئی اعتراض تو نہیں تاہم ہمارے تحفظات سنے جائیںگے۔ بعدازاں ایوان نے بل کی اتفاق رائے سے منظوری دیدی، اب یہ بل صدرکے پاس منظوری کیلیے جائے گا اور ان کے دستخط ہونے کے بعد ملک بھر میں نافذ ہو جائے گا، بل کے تحت کسی بھی مشتبہ شخص کو تفتیش کیلیے 90 دنوں تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے جسے کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل اس بل کو حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے عددی اکثریت ہونے کی وجہ سے قومی اسمبلی سے منظور کرایاتھا تاہم سینٹ جہاں حکمران جماعت کے پاس اکثریت نہیں،اپوزیشن جماعتوں نے اس کی 4 شقوں میں ترامیم کیں ۔ بی بی سی کے مطابق سینیٹ نے بل میں جو ترامیم کی ہیں اس کے مطابق جب تک کوئی مجسٹریٹ یا گریڈ 17 کا افسر سیکیورٹی فورسز یا قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکاروں کو اجازت نہیں دے گا اس وقت تک کسی بھی مشتبہ شخص پر گولی نہیں چلائی جائے گی۔
اس کے علاوہ اگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکارکسی بھی مشتبہ شخص کو کسی بھی الزام میں حراست میں لیتے ہیں اور بعد میں یہ الزام غلط ثابت ہو جاتا ہے تو اس اہلکار کو 2 سال قید کی سزا یا جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔ دورانِ حراست ملزم کو تمام طبی سہولتیں اورقانونی معاونت فراہم کرنے کی بھی بات کی گئی ہے۔ ایوان نے سینیٹ سے منظور ہونیوالے سروس ٹریبونل ترمیمی بل 2014 اور لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسلز ترمیمی بل 2014 کی بھی اتفاق رائے سے منظوری دیدی۔ یہ دونوں بل بھی برجیس طاہر نے پیش کیے۔