تحریر: شاہد شکیل انسان کمزور بھی ہے طاقتور بھی،بزدل بھی بہادر بھی، غیر ذمہ دار بھی اور بااختیار بھی لیکن زندگی میں کئی بار حادثاتی طور پر ایسے واقعات پیش آتے ہیں یا کئی عوامل وراثت میں ملنے کے سبب وہ بااختیار نہیں رہتا اور محض وقت کے دھارے کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے کئی بار اس کا دل و دماغ اسے روکتا ہے کچوکے لگاتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے درست عمل نہیں لیکن چونکہ وہ بے اختیار اور بے بس ہو چکا ہوتا ہے اسے کسی کی پرواہ نہیں ہوتی اور اپنی دھن میں مگن اپنی زندگی کو اپنے طرز سے بسر کرنے کو ہی اولین ترجیح دیتا ہے ایسے انسان اپنی عادت ،علت یا لت لگ جانے سے دنیا و مافہیا سے بے خبر ہوتے ہیں۔ کیونکہ کسی بھی کونزیوم یا عام روزمرہ استعمال کی اشیاء کی عادت یک دم نہیں پڑتی عادت میں مبتلا ہونے کی کئی وجوہات اور مختلف اشیاء پر انحصار کرتا ہے کسی بھی ظاہر ہونے والی نشانی سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں فلاں چیز کی عادت ہو گئی ہے لیکن اگر انسان یہ محسوس کرے کہ وہ مخصوص شے کے بغیر نہیںرہ سکتا اور کھو جانے کی صورت یا خوف سے کمی محسوس کرتا ہے تو فوری معالج سے رجوع کیا جائے۔عام طور انسان محسوس نہیں کرتا کہ وہ کسی شے کا عادی ہو چکا ہے کیونکہ کئی اشیاء ابتداء میں نقصان نہیں پہنچاتیںاور نہ ہی جسمانی یا نفسیاتی طور پر علامات ظاہر ہوتی ہیں مثلاً بے خوابی یا وزن میں کمی وغیرہ کو انسان محسوس نہیں کرتا لیکن اگر بے خوابی لاشعوری طور پر عادت بن جائے تو صحت کی خرابی کے ساتھ زندگی میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
عادت،لت یا علت کی کئی اقسام ہیںمثلاً الکوحل،نکوٹین ، میڈیسن،گیمبلنگ اور ہارڈ منشیات وغیرہ ایسی عادات کا بغیر نقصان کے انسان کی زندگی میں آغاز ہوتا ہے اور باقاعدگی سے ان کے استعمال کرنے کے کئی سالوں بعد محسوس ہوتا ہے کہ عادت بن چکی ہے ۔عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق جو انسان باقاعدگی سے نشہ آور اشیاء استعمال کرتا ہے وہ سو فیصد عادت کا شکار ہے بھلے وہ صبح کی چائے یا کافی ہو، شام کو الکوحل کا استعمال، ہفتے میں ایک بار کسی بھی قسم کا جوایا ہر ویک اینڈ پر کپڑوں اور جوتوں کی شاپنگ کرنا ،ہر اس شے کو باقاعدگی سے استعمال کرنے سے جسے انسان سمجھتا ہے میرے لئے یہ ضروری ہے اسے عادت یا علت میں مبتلا کہا جاتا ہے۔عادت میں مبتلا افراد کی چند نشانیاں ان کی اپنی حرکات سے ظاہر ہوتی ہیں ،مثلاً وہ مکمل طور پر کسی چیز پر توجہ نہیں دیتے،ہمیشہ عدم اطمینان کا شکار رہنا،گھبراہٹ،بے خوابی،چڑ چڑا پن،بے چینی ،بھوک اور وزن میں نمایاں طور پر کمی واضح ہونا وغیرہ،ان تمام علامات کے ظاہر ہونے سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انسان کسی بھی عادت میں مبتلا ہے اور جب تک وہ اپنے مشن کو پایہ تکمیل نہیں پہنچا تا بے چین رہے گا۔ رپورٹ کے مطابق انسان بہت جلد نشے کا عادی ہو جاتا ہے اور نشے میں مبتلا ہونے کیلئے کسی اچھی بری صحبت یا کمپنی کی ضرورت نہیں ہوتی انسانی رویہ ہی ایک ایسی علامت ہوتی ہے جو ظاہر کرتا ہے کیونکہ ایک عام پرسکون انسان کبھی بے چینی یا بے سکونی میں مبتلا نہیں ہوتا ،
Smoking
مثلاًدن میں چار مرتبہ چائے پینے والے کو ایک بار چائے نہ ملے تو وہ پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے یا سموکر دو گھنٹے تمباکو نوشی نہ کرے تو اسکے چہرے کی رنگت اور رویہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ کچھ کھو بیٹھا ہے اور اذیت میں مبتلا ہے کیونکہ انسانی جسم اپنی عادت کو پورا کرنے کیلئے کنزیوم کی مسلسل فراہمی چاہتا ہے تاکہ اس کا اعصابی نظام درست طریقے سے فنکشن کرتا رہے اسکی ایک دوسری مثال شرابی کو شام کو دو گھونٹ نہ ملیں تو وہ عدم برداشت کا شکار ہو جاتا ہے اور جسمانی صلاحیت میں کمی واقع ہوتی ہے کانپنے لگتا ہے وغیرہ ایسے افراد کو جتنا کنزیوم سے دور رکھا جائے گا اتنی زیادہ طلب ہوگی اور موقع ملتے ہی مقدار میں دوگنا اضافہ ہو جائے گا،
ایسے عوامل میں انسان بااختیار ہوتے ہوئے بھی بے اختیار اور بے بس ہوتا ہے اور کنزیوم یعنی نشہ ،عادت یا نفسیات کی جیت ہوتی ہے کیونکہ نشہ میں مبتلا ہونا بھی نفسیاتی مرض کہلاتا ہے اور اسکے کئی ایفیکٹ ہیں لیکن جیت نشے کی ہوتی ہے یہ لت دماغ کو ایکٹو رکھنے کیلئے اور جسمانی ریلیکس پہنچانے کیلئے انسان کو مجبور کرتا ہے کہ پی اور جی،ظاہر بات ہے یہ سب انسانی ذہن کی خرافات ہیں،لیکن ایسی عادات میں جکڑے افراد ہمیشہ یہ محسوس کرتے ہیں ہماری زندگی کا مقصد ہی نشہ ہے وہ چائے کافی ہو،الکوحل یا ڈرگس ہویا خریداری وغیرہ،باالفاظ ِدیگر نشہ کی جیت ہوتی ہے اور انسان ہار جاتا ہے۔ایسے افراد جسمانی ،ذہنی اور سماجی نقصان کے باوجود ایک مخصوص طرز زندگی گزارنے پر ترجیح دیتے ہیں
چاہیں تو کنٹرول کرسکتے لیکن نہیں کرپاتے کیونکہ اپنی عادات اور خواہشات کے حصار میں قید رہنا ہی پسند کرتے ہیں،عالمی ادارے کے مطابق یہ تمام عوامل عادت نہیں بلکہ بیماری ہے اور دنیا بھر میں اسے تسلیم کیا گیا ہے،مغربی ممالک میں نشے کی عادات میں مبتلا افراد کو ادویہ اور دیگر تھیراپی سے شفایاب کرنے کیلئے کئی سر کاری و غیر سرکاری ادارے قائم ہیں اور راہ راست پر لانے کے بعد ایک عام انسان کی طرح زندگی گزارنے کے مواقع بھی پیدا کئے جاتے ہیں ۔انسان جتنا کمزور ہے اتنا ہی بہادر بھی اگر وہ چاہے تو وقت اور حالات سے مقابلہ کرتے ہوئے ہر شے کو مات دے سکتا ہے لیکن حالات سے جنگ کرنا بھی ہر انسان کے بس میں نہیں کئی بار تو حالات بڑے سے بڑے طرم خان کو بھی خاک چاٹنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔