سمجھا دیا گیا کہ ”دُنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں ایک متاعِ قلیل کے سوا کچھ بھی نہیں ” (القرآن)۔ فرما دیا میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ”جو دنیا سے محبت کرے گا وہ اُسے دھوکا دے گی، جو اس کی اطاعت کرے گا وہ اسے گمراہ کرے گی، جو اِس کا حلقہ بگوش ہو گا وہ اُس پر ستم ڈھائے گی۔ مبارک باد کے قابل ہے وہ شخص جو اِس سے الگ رہا اور تباہ ہوا وہ جو اُس کی طرف جھک گیا لیکن حبّ ِ دنیا میں مگن ہمارے حکمران تو ربّ ِ کردگار کا یہ فیصلہ بھی بھول گئے کہ حقوق العباد میں کوتاہی پر معافی کی سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں، نہ اُنہیں میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان یاد رہا کہ تم میں سے ہر ایک راعی ہے جس سے روزِ قیامت اُس کے ریوڑ کا حساب لیا جائے گا۔
عین اُس وقت جب وزیرِ اعظم میاں نواز شریف اور جنابِ آصف زرداری باہوں میں باہیں ڈالے تھر کول پراجیکٹ کا افتتاح کرکے قوم کو نئی دنیائیں سجانے کی نوید سنا رہے تھے ، اُسی ”تھَر”میں ماؤں کی گودوں کے شیر خوار بھوک کے ہاتھوں سسک سسک کر دم توڑ رہے تھے۔ عین اُس وقت جب پیپلز پارٹی کے شہزادے بلاول زرداری کی خواہش اور ضد پر سندھی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے عدیم المثال سندھ فیسٹیول پر پانچ ارب روپے صرف کیے جا رہے تھے، تھَر کے بیمار دواؤں کی عدم فراہمی پر تِل تِل مَر رہے تھے۔ عین اُس وقت جب تھَرپارکر کے بے کس و بے بس اور مجبور و مقہور عوام حصولِ رزق کی تلاش میں صحرا کے سرابوں میں سَر گرداں تھے ، سندھ کے گوداموں میں پڑی گندم کی 47 ہزار بوریاں گَل سَڑ رہی تھیں۔عین اُس وقت جب نواز لیگ کے ”وارثِ اعلیٰ ” گینیز بُک آف ورلڈ کے ریکارڈ میں نام لکھوانے کے شوق میں کروڑوں ، اربوں پھونک رہے تھے ، ”مِٹھی” کی ماؤں کی سونی گودیں دہائی دے رہی تھیں کہ
اِس دَورِ منّور میں سرِ ارض ہے جیسا انسان کو ایسا کبھی خونخوار نہ دیکھا
یہ ایک دِن کا قصہ ہے نہ کسی نا گہانی آفت کا شاخسانہ ۔یہ سب کچھ تو گزشتہ چار ماہ سے حکمرانوں کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا تھا ، یہ الگ بات ہے کہ حکمرانوں کی آنکھوں پہ چڑھی ثروت و نخوت اور جاہ و حشم کی چربی نے اُنہیں ایسا ”کور چشم” بنا دیا کہ اُنہیں کچھ بھی دکھائی نہ دیا ۔یہ کور چشمی شاید بر قرار ہی رہتی اگر الیکٹرانک میڈیا میں شور نہ مچ جاتا ۔یہ الیکٹرانک میڈیا بھی بڑی خاصے کی شے ہے ۔اِس کا اپنا یہ حال ہے کہ
کی مرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
آج چیخنے ”چنگھاڑنے” والا الیکٹرانک میڈیا چار ماہ تک کہاں سویا رہا ؟۔ کیا تیز و طرار میڈیا کے کانوں تک یہ خبر نہیں پہنچی ہو گی کہ” موروں کا مسکن” اب موت کے مسکن میں ڈھل چکا ہے؟۔پتہ میڈیا کو سب تھا لیکن سوال ”ریٹنگ” کا آن پڑا کہ جس خبر کی ریٹنگ زیادہ ہو گی وہی میڈیا کے مَن کو بھائے گی۔پہلے طالبان، اینٹی طالبان کی بریکنگ نیوز جاری تھیں ، نِت نئے انکشافات ہو رہے تھے اور الیکٹرانک میڈیا کی دوکانداری خوب چمک رہی تھی۔اب ”مذاکرات کی اُمید” پر معاملہ کچھ ٹھنڈا پڑا تو ہمارے بے باک میڈیا کو تھرپارکر یاد آ گیا ۔اب جس نیوز چینل کو دیکھو وہیں تھرپارکر کا نوحہ جاری ہے ۔بس دو چار دنوں کی بات ہے ، جب میڈیا کے ہاتھ کوئی ہلچل مچا دینے والاموضوع لگ گیا تو پھر کہاں کا تھرپارکر اور کونسا تھرپارکر؟۔پھر بھی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا شکریہ کہ اُس نے دیر سے سہی لیکن فراعینِ وقت کو جھنجھوڑا تو۔
Sindh Government
سندھ حکومت نے اپنوں کو نوازنے کے لیے ریلیف، بحالیات اور پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی جیسے تین تین محکمے بنا رکھے ہیں۔ایک وفاقی حکومت کا ادارہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی بھی ہے جس کا صوبوں کے ساتھ مکمل رابطہ ہوتا ہے ۔ہر سال اِن اداروں کے لیے اربوں روپے کو بجٹ مختص کیا جاتا ہے۔اِن اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلسل مانیٹرنگ کرکے حکومت کو آگاہ کرتے رہیں تاکہ کوئی المیہ جنم نہ لے سکے ۔ضلعی انتظامیہ اور ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے فرائض ِ منصبی میںبھی یہ شامل ہے کہ وہ کسی بھی متوقع المیے کا بَر وقت تدارک کرنے کی تدابیرکریں ۔اور ماشاء اللہ تھر میں ہمارے قومی اسمبلی کے دو اور صوبائی اسمبلی کے چار عوامی نمائندے بھی ہوتے ہیں جو ووٹ مانگتے وقت زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں لیکن وقت آنے پر ایسے غائب ہوجاتے ہیں جیسے گدھے کے سَر سے سینگ ۔کسی جانب سے شور اُٹھا نہ کسی کو کان و کان خبر ہوئی۔
اگر پتہ چلا تو الیکٹرانک میڈیا سے، باقی سب سوئے رہے۔آج سندھ کے وزیرِ اعلیٰ سیّد قائم علی شاہ بر ملا اپنی کوتاہیوں کا اقرار کر رہے ہیں لیکن قوم سوال کرتی ہے کہ اِس ”قتلِ عمد”، اِس دہشت گردی کا مقدمہ کِس کے خلاف درج کرایا جائے ؟۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کے خلاف، انتظامیہ کے خلاف، عوامی نمائندوں کے خلاف یا پھر خود وزیرِ اعلیٰ کے خلاف ؟۔ اگر طالبان کے ہاتھوں یہی 200 بچے شہید ہو جاتے تو پورے ملک میں شورِ قیامت اُٹھتا اور ہر زبان پر ایک ہی مطالبہ ہوتا کہ اِن دہشت گردوں کو نیست و نابود کر دیا جائے لیکن جس دہشت گردی کا ارتکاب سندھ حکومت کے اربابِ اختیار نے کیا ہے، اُس لہو کا حساب کس سے مانگیں؟۔ کیا سیکرٹری ہیلتھ سے جو وزیرِ اعلیٰ کا داماد ہے یا پھر ڈپٹی کمشنر سے جو مخدوم امین فہیم کا داماد ہے؟۔ سندھ حکومت تو بڑے فخر سے یہ کہتی رہی ہے کہ اُس نے پانچ سالوں میں تعلیم اور صحت پر پانچ سو ارب روپیہ صرف کیا اور ریکارڈ بھی تصدیق کرتاہے کہ اربوں روپے ادویات پر صرف ہوئے۔پھر وہ اربوں کی ادویات کہاںگئیں کہ ہسپتالوں میں تو کسی کو ایک روپے کی گولی بھی نصیب نہیں۔
سچ کہا ولیم جیمز نے کہ ”انسان سب درندوں سے زیادہ خطرناک ہے۔سوائے انسان کے شاید ہی کوئی درندہ ایسا ہو جو اپنی ہی جنس کو چیرتا پھاڑتا ہو۔ تھرپارکر میں قحط کے ہاتھوں ماؤں کی چھاتیاں سوکھ گئیں ،نمونیے، ہیضے اور وبائی امراض نے ننھی کلیوں کو مرجھا دیا، پھول بِن کھلے مرجھا گئے، ہر گھر میں نوحہ خوانی اور ہر دَر پہ ماتم لیکن ”مَرسوں مَرسوں، سندھ نہ ڈیسوں ” کا نعرہ لگانے والا بلاول زرداری اپنے پُر تعیش محل میں آرام کرتا رہا لیکن لطیفہ یہ کہ وزیرِ اعلیٰ قائم علی شاہ فرماتے ہیں کہ بلاول زرداری تھرپارکر کی اِس نہ گفتہ بہ حالت پر بہت پریشان ہیں اور وہ دن میں چار چار مرتبہ تھر کی صورتِ حال پوچھتے ہیں۔ وزیرِ اعلیٰ سندھ طوہاََ و کرہاََ ”مٹھی” تک تو پہنچے لیکن صحراؤں کی خاک چھاننے کی ہمت نہ پا کربارہ لذیذ ڈشز سے مزّین” لنچ” تناول فرما کر گھر کو سدھارے۔ شرجیل میمن کہتے ہیں کہ تھر کے دور دراز علاقوں میں پہنچنا مشکل ہے۔
شاید اسی لیے شرجیل میمن صاحب نے بھی تھر کے اُن 24 سو دیہاتوں تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کی جہاں تا حال امدادی کارروائیاں شروع ہی نہیں ہو سکیں ۔وہ بھی صرف مٹھی تک پہنچے اور لنچ تناول فرما کر لَوٹ آئے۔ سندھ کے وزیرِ خوراک نے کمال بے نیازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہاں تک فرما دیا کہ گندم فراہم کر دی گئی تھی، تقسیم کرنا میرا کام نہیں اور سندھ ہی کے وزیر دوست محمد کے رشتے داروں نے چودہ ہزار بوریوں پر مشتمل گندم کے گوداموں کو تالے لگا کر یہ ثابت کر دیا کہ بھلے شداد، نمرود اور فرعون واصلِ جہنم ہوئے لیکن زمینی خُدا اب بھی زندہ ہیں۔