تحریر : شہزاد سلیم عباسی مسلم لیگ ن کی خوبصورت پالیسی کے باعث ہمیشہ عوام دوست بجٹ کے بجائے کاروبار دوست بجٹ پیش کیا جاتا ہے۔ مرغی، کھاد، زرعی مشینری، پولٹری مصنوعات، پنکھے، آٹو پارٹس، بچوں کے ڈائپر، سمارٹ موبائل فون، ہائبرڈ الیکٹرک گاڑیاںاور آلات جراحی سستے اور سیمنٹ، سریا، دودھ وغیرہ مہنگے کر دیے گئے ہیں۔ بلڈرز ، ڈویلپرز پر فکسڈ ڈیوٹی ختم اور ملٹی میڈیا پروجیکٹرز پر ٹیکس کم کر نے کی تجویز دی گئی۔مختلف المقاصد203منصوبوں پر 47کھرب 53ارب روپے کا بجٹ پیش کیاگیا ۔ ترقیاتی منصوبوں کے لیے 1001ارب روپے رکھے گئے حالانکہ یوکے اور یو ایس میں ترقیاتی منصوبوں پر ٹوٹل بجٹ کاتقریبا 80فیصد خرچ ہوتا ہے۔ دفاعی بجٹ میں 920ارب روپے کا ریکارڈ اضافہ کر کے بجٹ کی بے ڈھنگی تقسیم کی گئی ، بیت المال 4ارب روپے،اعلیٰ تعلیم کیلئے 95.9 ارب ،صحت کیلئے 59 ارب روپے، وزارت بین الصوبائی رابطہ امور کے لیے 3 ارب 4کروڑ روپے، صاف پانی کے لیے12ارب، وزیر اعظم یوتھ پروگرام کے لیے 20ارب روپے، سی پیک منصوبوں کیلئے 180ارب اور گوادر کی ترقی پر 7ارب روپے اخراجات کی مد میں رکھے گئے۔ لیکن آئی ٹی کیلئے بہت کم رقم مختص کی گئی حالانکہ اب پوری دنیا آئی ٹی کی صنعت پر شفٹ ہورہی ہے ۔ نان فائلرز کو مزید 60 دنوں کی چھوٹ دے کراس بات کو تقویت ملی کہ وہ مزید ٹیکس چوری کریں۔ گاڑیوں پر ٹیکس میں کمی، صنعتوں ، کمپنیوں ، تاجروں اور مختلف کاروباری گروپوں کو مزید سبسڈی دے کر اپنے ذاتی کاروبار کے لیے مواقع تلاش کیے گئے۔ Macro economic stability بڑھانے کے بہانے لیپ ٹاپ اسکیم میں 20ارب روپے کا بے مقصد اضافہ کیا گیا۔
حالیہ بجٹ سے کسی بہتری کا حصول تو ممکن دیکھائی نہیں دیتا البتہ کھوکھلے حکومتی اہداف ضرور سامنے آئے ہیں۔ (1)سرمایہ کاری میں مزید اضافہ ضروری ہے۔ (2)نجی شعبہ کی مضبوطی کے لیے مزید وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔(3)پانی کی فراہمی جو کہ زراعت اور گھریلو استعمال دونوں کے لیے ضروری ہے، داسو اور دیامر بھاشا ڈیم پر21ارب روپے خرچ کر کے پانی کی کمی پوری کی جائی گی۔(4)گڈ گورننس کے لیے مزید محنت کرنا ہوگی تاکہ احتساب کے نظام قائم ہو سکے۔ (5)ایف بی آراصلاحات کی جائیں(6)این ایف سی ایوارڈ کے لئے ازسر نو قانون سازی کو عمل میں لایا جائے گا۔ (7) بجٹ منصوبوں میں غریب خاندانوں،کم آمدنی والے حضرات، توانائی کی فراہمی، خوراک کی فراہمی کے لیے بھرپور کا م کرنے اور ساتھ ہی ساتھ غریب کسانوں کو فصلیں اگانے کے لیے مزید سبسڈی پر غور کیا جائے گا۔ (8) پبلک سیکٹر انٹرپرائز کی کاردگی کو مزید فعال کیا جائے گا۔ (9) برآمدات میں اضافہ کیا جائے گا۔ (10) علاقائی عدم مساوات کو ختم کر کے قومی و فکری ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے مندرجہ ذیل نقاط پر برق رفتاری سے کام شروع ہو گا۔ہر بچے کو سکول کی تعلیم کے حصول کے لیے آمادہ کر کے سکول میں رجسٹر کیا جائے گا ، ہنر مند افرادکو روزگار کے مواقع مہیا کیے جائیں گے، زچہ بچہ مریضوں کے لیے سہولیات کو مزید بہتر بنایا جائے گا، بجلی کی دستیابی کو لازم بنایا جائے گا، فی کس آمدنی میں اضافے کے لیے کوشش کی جائے گی، صاف پانی کی فراہمی ممکن ہوگی، آبادی کے بڑے حصے کو انٹر کنیکٹ کیا جائے گااور G-20 میں شامل ہونے کی کوشش کی جائے گی۔بڑے افسوس کیساتھ ان اہداف کو بھوگس قرار دیا جاتا ہے کہ اس پر عمل درآمدکے لیے نیک نیتی ضروری ہے۔ کھابوں اور اللے تللوں کی رسیا نواز لیگ حکومت نے وزیر اعظم آفس اور ایوان صدر کے لیے بھی باالترتیب 91کروڑ67لاکھ روپے اور 95کروڑ96لاکھ تجویز کیے ہیں حالانکہ کھربوں روپے کے اثاثوں کے مالک خاندانوں کو غریب عوام پر ہاتھ تھوڑا ہولا رکھنا چاہیے کیو ں چند کروڑ تو یہ امیر زادے اپنی جیب سے بھی لگا سکتے ہیں۔
یہ شاید تاریخ کا پہلا بجٹ ہے جس میں قرآنی آیات اور اقبال کے اشعار کا سہارا لیا گیا ۔سورة آل عمران کی آیت”اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور آپس میں تفرقہ بازی میں مت پڑھو” پڑھ کر قوم کو سبق سکھایا گیا کہ اب ہم نے بجٹ پیش کر دیا ہے لہذا اس پر یقین کر کے مان لو ، آپس میں اتحاد و یگانگت رکھو اورکسی بھی احتجاج وغیرہ سے دور رہ کر اگلی ٹرممیں بھی ہمیں ووٹ دو ۔وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار نے بجٹ اگرنیک نیتی سے پیش کیا ہے اور ”کی محمدۖ سے وفاتوں نے تو ہم تیرے ہیں ۔ یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں” شعر دل سے پڑھا ہے تو پھر انہیں اپنے آخری الفاظ پر غور کر نا چاہیے جس میں انہوں نے ریاست مدینہ کے ماڈل کی بات کی اور مدینہ کو مثالی ریاست قرار دیاہے ۔ جناب وزیر خزانہ !زبانی جمع خرچ سب کرتے ہیں اور قانون کی حکمرانی و بالا دستی، سماجی تحفظ ، گڈ گورننس اور انصاف کی فراہمی کے راگ بھی سبھی آلاپتے ہیں ۔ لیکن ایک عام انسان کو گاڑیوں، صنعتوں، انٹرپرائزز،سمندر پار پاکستانیوں، فائلرز نان فائلرز، سیلز ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی،افراط زراور تفریط زر، ڈیم،میگاواٹ ، توانائی ، جی ڈی پی، فی کس آمدنی، سرمایہ کاری بورڈ، اقتصادی ترقی، ایف بی آئی، آئی ٹی ، سی پیک، پورٹل، ڈیویلپمنٹ فنڈ اور در آمدات و برآمدات وغیرہ سے کوئی سروکار نہیں ہوتی ۔ آج تک کسی نے غریب انسان کی دو وقت کی روٹی،اس کے بچوں کی پڑھائی ،صاف پانی اور صحت کی سہولیات دینے کیلئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا ؟ وزیر خزانہ صاحب آپ نے بھی اس بار مکس بجٹ پیش کر کے ناچارو لاغر عوام کے ساتھ مذاق کیا ہے اور ان کے ریلیف کے لیے کچھ خاص مختص نہیں کیا ہے۔
کھربوں روپے کے بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہمارا پیار ا ملک چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ بیرونی قرضوںکے جال سے نکلنے کے لیے برآمدات کو بڑھا کر در آمد ات پر انحصار کم سے کم کرنا ہوگا۔حالیہ بجٹ پر عامی چار بنیادی سوال کرتا ہے کہ(1) اگر ٹیکس ریٹرن ریٹ (ٹیکس کی وصولیوں کا ہدف)پہلے کے مقابلے میں کئی فیصد بڑھا ہے تو تجارتی خسارہ اربوں روپے کے اضافے کے ساتھ 81فیصدکے اضافے پر کیسے پہنچا ہے؟۔ (2) اگر اقتصادی ترقی میں کئی سو گناہ اضافہ ہوا ہے تو پھر بیرونی قرضہ جات میں اضافہ کیوں ہوا ہے؟۔(3) یہ بجٹ الفاظ کے گورکھ دھندے” گا،گی ، گے ”سے آگے بڑھ کر عوام دوستی کے لیے بھی کچھ مددگار ثابت ہوگا یا ہمیشہ کے بجٹ تخمینوں کی طرح عوام پر کمر توڑ مہنگائی ، قرضوں کی لعنت میں اضافے ،ارض پاکستان میں انتشار، معاشرتی ناہمواری، بے روزگاری میںاضافے اورغربت و افلاس میں اضافے کا باعث بنے گا؟ (4) مختلف اشیاء پر ٹیکس وصولیوںاور بقایاجات کی ادائیگیوں کے ضمن میں حکومت اور حکومتی ادارے جو رقم حاصل کریں گے ، اُسکے اعداد وشمارکا خزانہ کس کی جیب میں جائے گا۔