تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر مسلسل ایک ہفتے سے پاک دھرتی ماں کا مقدس وجود دھماکوں سے لرز رہا ہے لشکر یزید کے شمر صفت حواری میری دھرتی ماں کو اسی کی معصوم اولاد کے خون سے غسل دینے میں مصروف عمل ہیں اب تک دھرتی ماں کے چاروں صوبوں میں بے ضمیر اور بے حس سفاک دہشت گرد خون کی ہولی کھیل کر اپنے مذموم مقاصد پورے کر چکے ہیں ان یزیدان وقت سے نہ سیکیورٹی ادارے محفوظ ہیں نہ عام عوام بچی ہوئی ہے اور نہ ہی درگاہیں اور دربار ان کی سفاکی اور درندگی سے بچ پائے ہیں ناجانے انسانی شکل میں یہ بھیڑیئے زمیں کو خون رنگ دیکھ کر کیسی تسکین یا بخشش کے طالب ہیں آج تو ناجانے کیوں مرحوم بزرگ شاعر بابا عبیر ابوزری کا وہ شعر بار بار ذہن کو جھنجھوڑ رہا ہے کہ ہر روز کسی شہر میں ہوتے ہیں دھماکے رہتی ہے میرے دیس میں شب برات مسلسل
حا لانکہ یہ شعر کئی سال پہلے کہا تھا انہوں نے مگر لگ رہا ہے کہ ابھی رات کو ہی یہ کلام کہا گیا ہو دوسری طرف اس طرح کے محقق اور دانشور اور قسم کے لوگ بھی دھرتی ماں کے کرتا دھرتا بن کر ہم پر مسلط ہوئے بیٹھے ہیں جو اپنی دانشوری کچھ اس انداز سے جھاڑ رہے ہوتے ہیں کہ الحفیظ و الامان موصوف لاہور مال روڈ کے دھماکے کے بعد فرما رہے تھے کہ نہ وہاں یہ فارماسسٹ اور میڈیکل والے احتجاج کرتے نہ اتنی تعداد میں اکٹھے ہوتے اور نہ دھماکہ ہوتا واہ کیا کہنے جناب آپ کے ۔میں تو اس بات کو سمجھ ہی نہیں پایا کہ موصوف کہنا کیا چاہ رہے تھے ؟جب حکومت کو سیکیورٹی اداروں کی طرف سے الرٹ کر دیا گیا تھا کہ لاہور میں خود کش بمبار داخل ہو چکے ہیں تو اس کے تدارک کے لئے کیا اقدامات کئے گئے یا صرف اسی خوشی میں جھومتے رہے کہ ہمیں معلوم تھا دہشتگرد داخل ہو چکے ہیں بات تو یہ ہے کہ وہ داخل ہوئے ہی کیوں ؟ انہیں داخلے سے پہلے ہی جہنم واصل کیوں نہ کیا گیا یا ہم انتظار کرتے رہے کہ پہلے وہ جرم کر لیں بعد میں ہم مذمتیں کر کے سکون قلب حاصل کر لیں گے میں پہلے بھی بارہا یہ کہ چکا ہوں جس ماں کی گود اجڑے احساس اسے ہوتا ہے کہ میری دنیا اندھیر ہوگئی ہے ، جس باپ کو جوان بیٹے کی میت کو کاندھا دینا پڑے۔
اسکی حالت وہ ہی جانتا ہے کہ اس کا مستقبل تباہ ہو گیا اس کی کمر کا زور ختم ہو گیا اسکی بینائی ختم ہو گئی ،یا اس بیوی کو علم ہے جس کا سہاگ اس بربریت کی نظر ہو کر اسے بے سہارا کر گیا ،یا بچے ہی جان سکتے ہیں اس غم کی شدت جن کے سر سے باپ کا سائبان چھن جائے اور وہ زمانے کی کڑکتی اور چلچلاتی دھوپ میں گھنے سائے سے محروم ہو گئے یہ وزراء یا لیڈران قوم کیا جانیں کہ یتیمی کیا ہوتی ہے ،یہ تو ان سے پوچھیں جن کا کمانے والا کوئی نہ رہ گیا ہو ۔ ہم بس میڈیا کے سامنے آکر سوائے مذمتی الفاظ بولنے کے اور کرتے بھی کیا ہیں ۔کہتے ہیں کہ ایک بے گناہ انسان کی مو ت پو ری انسانیت کی موت ہے اور جہاں سینکڑوں بے گناہ مارے جا رہے ہوں وہاں پہ کیا کہا جائے گا میرے ذہن میں تو اس شعر کے علاوہ اور کچھ نہیں آرہا کہ جہاں یزید بہت ہوں حسین اکیلا ہو تو کیوں نہ اپنی زمیں کو بھی کربلا لکھوں
Raw
دھماکے کرنے والے را کے ایجنٹ ہوں ، افغانی ہوں یا اسی ماں دھرتی کی کوکھ سے جنم لینے والے ناخلف اور ناہنجار بے ضمیر سیاسی یا مذہبی لبادے میں یزید وقت ہوں وہ میری ماں دھرتی کے دشمن ہیں اب وقت آگیا ہے کہ بلا تخصیص سب کو بے نقاب کر کے قرار واقعی سزا دی جائے اور جس طرح مقدس ماں دھرتی کی کوکھ اجاڑی گئی اسی طرح چوکوں اور چوراہوں میں ان کو لٹکا کر بعد میں ان کے ناپاک وجود کسی کو دفن نہ کرنے دئے جائیں بلکہ انکے وجودوں کو آگ کی نذر کر دینا بنتا ہے ۔جب ہمیں یہ علم ہو جاتا ہے کہ خود کش بمبار ارض پاک میں داخل ہو چکے ہیں تب تو ہمیں یہ بھی پتہ ہو گا کہ وہ ناپاک ارادوں سے لیس کس جگہ سے داخل ہوئے ؟ کس نے اسے داخل ہونے میں مدد فراہم کی ؟اور کس بے ضمیر نے ماں دھرتی سے غداری کر کے اسے مہمان رکھا اور عین وقت پر اسے ماں دھرتی پر دہشت پھیلانے کا موقع دیا ؟قارئین کرام جب سابقہ آرمی چیف نے وزیرستان میں آپریشن کیا تو انہوں نے مقدس دھرتی کے تقدس اور اسکی حفاظت کو ذہن میں رکھتے ہوئے بغیر کسی حکومتی یا بیرونی دبائو کے اپنا فریضہ بطریق احسن انجام دے ڈالا تھااور جو علاقے دہشت گردوں کی جنت سے تعبیر کئے جاتے تھے وہاں پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے بلند کروا کر دم لیا تھا بالکل اسی طرح اب صرف سندھ ہی نہیں بذریعہ رینجر ز پورے پاکستان میں بلا تاخیر آپریشن کی ضرورت ہے آرمی پبلک سکول سے لے کر آج تلک دھرتی ماں اپنی معصوم اولاد کو اپنی پاکیزہ آغوش میں ہزاروں کی تعداد میں سمو چکی ہے کیا یہ ماں یونہی آہیں بھرتی رہے گی ؟ یونہی روتی بلکتی رہے گی ؟یا کوئی سپوت آگے بڑھ کر ماں دھرتی کی دلجوئی کا فریضہ بھی انجام دے گا۔
سیہون شریف میں جو دھماکہ ہوا وہاں سب سے پہلے تو دیکھنا ہو گا کہ سیکیورٹی کی صورت حال کیا تھی ؟وہاں کے لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ یہاں سیکیورٹی پر رینجرز کو تعینات کیا جائے کیوں کہ پولیس کے شیر جوان تو پیسے لے کر کسی کو بھی گزرنے سے نہیں روکتے یہ میں نہیں کہتا وہاں کہ زائرین کا کہنا ہے جو پورا ملک میڈیا پہ سن چکا ہے کہ لوگ کیا کہتے ہیں ۔فوری طور پر ملک بھر میں رینجرز اور فوج کی نگرانی میں آپریشن وقت کی اہم ضرورت ہے اور جو جو خاص طور پر پنجاب میں اس آپریشن کا مخالف ہے سب سے پہلے تو اسے شامل تفتیش کیا جائے اور جو لوگ فوجی عدالتوں کے مخالف ہیں ان پر بھی کڑی نظر رکھی جائے ۔صرف یہ کہہ کر خاموش ہو جانا کہ ہم دہشت گردوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹیں گے کافی نہیں اتنی بے بہا قربانیاں دے کر بھی ہم دشمن سے یارانے سے باز نہ آئیں فقط یہ کہہ دیں کہ ہم سخت مذمت کرتے ہیں جناب عالی اب مذمتی بیان سے نہیں بلکہ ہر ہر دشمن ملک و ملت کی مرمت کر کے امن قائم ہو سکے گا ۔ شہر در شہر مچی قہر سلاطین کی دھوم صحن گلشن پہ مسلط ہوئی خود باد سموم ظلمت جہل کی ہیبت سے پڑے زرد علوم لشکر جبر نے پامال کیا حسن نجوم
میری پاک دھرتی کے گلشن کے ہر پھول کو پامال کرنے والا غدار ہے خواہ وہ کوئی بھی ہے ہر کسی کی اتنی ہی سزا ہے جتنی کے غدار کی ہوتی ہے ۔غضب خدا کا حاکم وقت کہتے ہیں ہم دھرتی کو خوبصورت بنا رہے ہیں اسے کہتے ہیںخوبصورتی کہ ماں دھرتی کا پورا وجود لہو سے لال ہو جائے اور ہم خاموش تماشائی بن کر دیکھتے رہیں یا کہہ دیں کہ سرخ ملبوس میں دھرتی ماں دلہن کی طرح سج رہی ہے ؟ مقام حیرت ہے کہ جب بھی کوئی دہشت گرد پکڑا جاتا ہے اس کا چہرہ عوام کو دکھانے کی بجائے چھپا کر لے جایا جاتا ہے اس بے حس کا چہرہ بے نقاب کرنے کی بجائے اسے نقاب اڑھایا جاتا ہے ،آخر وجہ کیا ہے کم از کم مجھ جیسا کم فہم تو اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے ۔لاکھوں افغانیوں کو پاکستانی شہریت دے کر کہنا کہ نا جانے دہشت گرد کہاں سے آتے ہیں ؟ہندوستان جو نا صرف بارڈر پر بلکہ میری پاک سر زمین کے اندر گھس کر کارروائیاں کروائے اور ہم لالہ مودی جی کے خلاف زبان نہ کھولیں تف ہے ایسی سوچ پر ۔چوبیس کے قریب لاشے اٹھے لاہور سے اور ہم نے مذمت کر دی ،اسی کے قریب شہادتیں ہوئیں سیہون میں اور ہم نے مذمت کر دی ،کوئیٹہ میں بم کی زد میں آکر شہید ہونے والے شہداء کی شہادتوں پر ہم نے ظلم کی مذمت کر دی ،پشاور میں دھماکہ ہو جائے ہم مذمت کرتے ہیں ،واہ کیا کہنے جناب بہت خوب ۔ ان تمام واقعات پر انسانیت نوحہ کناں ہے اور آپ مذمتیں کرتے رہو۔
Pakistan Army
اب روائتی جملہ بازی سے نہیں عملی طور پر کچھ کرنا ہو گا چاروں صوبوں میں یکساں آپریشن کرنا ہو گا ،جس جس کے سایہء عاطفت سے دہشت گرد نکلیں انہیں اور ان پر سایہ کیئے ہوئے اس بھیڑیئے کو سر عام لٹکانا یا جلانا ہو گا وہ خواہ کسی وزارت پر متمکن سیاسی راہنماء کی شکل میں یزیدی بھیڑیا ہو ،کسی مذہبی کی شکل میں مذحبی ہو ،کسی چوہدری کی شکل میں جفادری ہو ،کوئی بھی ہو چاہے کوئی بھی ہو معاف نہ کیا جائے تب ماں دھرتی سکون پائے گی بصورت دیگر ہم سب مجرم ہوں گے ماں دھرتی کے ۔راہنماء تو کئی مرتبہ بزبان خود کہہ چکے ہیں کہ ان کی اولادیں پاکستان کی شہری ہی نہیں ہیں تو پھر پاکستان میں بسنے والی رعایا انکی اولاد کیسے ہو سکتی ہے حالانکہ حاکم وقت رعایا کے لیئے مثل باپ ہوتا ہے اور جس باپ کی یکمشت اتنی اولاد کو وجود سے گوشت میں تبدیل کر دیا جائے اسکی حالت کیا ہونی چاہئے ؟ اسکا تعلق قبل ازیں دشمن سے کیسا بھی کیوں نہ ہو پھر وہ تعلق نہیں بلکہ اپنی اولاد کا غم دل میں رکھتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑتا ہے یا کم از کم تعلق تو دشمن سے ٹوٹ ہی جاتا ہے یہ تب ممکن ہے اگر حاکم رعایا کو اپنی اولاد سمجھے تو ۔پھر وہ چن چن کر اپنی اولاد کے قاتلوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ سزا دینا اپنا فرض اولین سمجھ لیتا ہے پھر وہ یہ نہیں دیکھتا کہ ان میں اس کا کوئی وزیر با تدبیر ہے ، اسکا کوئی ہمسایہ ہے ، اسکا کوئی کاروبار میں شراکت دار ہے ، اس کا کوئی ملازم ہے یہاں تک کہ اسکا بھائی ہی کیوں نہ ہو وہ معاف نہیں کرتا بلکہ اپنی اولاد کا بدلہ لیتا ہے مگر ہمارے ہاں ایسا اللہ جانے کیوں ہو نہیں پایا ہمارے وزراء سپریم کورٹ کے احاطے میں تو سلطان راہی بن جاتے ہیں مگر ایسے دلخراش مواقع پر انکے ضمیر پر ہلکی سی خراش بھی نہیں آتی۔
کتنے آرام سے ہم کہہ دیتے ہیں کہ فلاں کالعدم تنظیم نے ذمہ داری قبول کر لی اور آج کے اس ترق یافتہ اور ٹیکنالوجی سے بھرپور دور میں ہم اسے ٹریس نہیں کر پاتے کہ کس جگہ سے اس نے آڈیو ، ویڈیو ،یا ٹیلی فونک اعتراف کیا ؟کبھی کہتے ہیں کہ را سارے دہشتگردانہ کام کروا رہا ہے تو پھر پکڑے ہوئے را کے ایجنٹوں کو سزا دیتے ہوئے بھی گھبرا رہے ہوتے ہیں آخر ایسا کیوں ہے ؟اور جو لوگ مذہب کی آڑ میں انسانی خون کی ہولی کھیل رہے ہیں ان کا اسلام سے تو کیا انسانیت سے بھی کوئی واسطہ نہیںبلکہ وہ تو شائد آدمیت سے بھی کوسوں دور ہیں ۔اسلام تو سلامتی کا دین ہے ،اسلام تو امن کا دین ہے ،اسلام تو اخوت و بھائی چارے کا درس دیتا ہے اور جو اپنے بھائی کو دہشت کا چارہ بنا دے وہ اسلام کا ٹھیکے دار بن جائے ایسا ممکن ہی نہیں ۔کبھی سنا کرتے تھے کہ لوگ کسی کو بد دعا دیتے ہوئے کہتے تھے کہ جائو اللہ کرے تم کتے کی موت مرو مگر اب حالات اسکے بر عکس ہیں کسی شاعر نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے کہ بھاگتے کتے نے اپنے ساتھی کتے سے کہا بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا
اور حقیقت میں حالات بھی کچھ ایسے ہی ہو چکے ہیں کہ ہم پاکستانی عوام اب کہیں بھی محفوظ نہیں گھر سے کام پر جائیں تو یہ یقین نہیں ہوتا کہ زندہ گھر جانا بھی ہے یا نہیں ہم پاکستانی ہیں ہمیں آخر وہ کونسا حکمران ہو گا جو ہمیں احساس تحفظ دلائے گا یا صرف ہماری لاشوں پر مذمت مذمت کا کھیل ہی کھیلا جاتا رہے گا ؟میں آخر میں ایک بار یہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور محترم وزیر اعظم پاکستان سے گزارش کروں گا کہ ماں دھرتی کے دشمن جہاں جہاں چھپے ہیں انکو ڈھونڈ نکالنے کے لئے چاروں صوبوں میں اور خاص طور پر پنجاب میں بھی اب آپریشن کیا جائے تا کہ آپ دھرتی کے فرزند کہلانے کے مستحق بن جائیں کسی کو بھی معاف نہ کیا جائے اگر ماں دھرتی کی خوشنودی حاصل کرنی ہے مگر جمہوری حکومت شائد ایسا دلیرانہ قدم نہ اٹھا سکیں اس خوف سے کہ نا جانے زد میں کون کون آئے یہی وجہ ہے کہ سیاست کے کرتا دھرتا یہ نہیں چاہتے کہ پنجاب میں آپریشن ہو مگر ملکی سلامتی کے لئے ہے یہ ضروری ۔ آخر میں ایک دعا کے ساتھ میں اپنی بات کو سمیٹتا ہوں۔ سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے قدم قدم آباد تیری گلیوں میں بکھری ہیں لاشیں ہائے ہائے خودکش بم دھماکوں کی آواز جو ہر سو آئے غارت کرے خدا ان کو جو کرتے ہیں بربادتجھے سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے
M.H BABAR
تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر Mobile ;03344954919 Mail;mhbabar4@gmail.com