تحریر: فریحہ احمد قدرت کی بنائی ہوئی زمین پر صدیوں سے کسی آبلہ پائی میں آنکھیں فرشِ راہ کئے صحرا, جہاں باوجود مشکلات کے زندگی آب وتاب کے ساتھ رقص کرتی نظر آتی ہے۔ کراچی سے چھ سو پچیس کلو میٹر دور جنوب مشرق کی طرف اکیس ہزار مربع کلو میٹر رقبے پر پھیلا صحراِ تھر دنیا کا تیسرا بڑا صحرا شمار کیا جاتا ہے۔ مٹھی اسکا مرکز ہے۔ جو ایک نہایت خوبصورت شہر ہے۔ اس ریگستان میں انسان ہوں یا حیوان, مور جیسے حسین پرندے ہوں یا ریت کے ٹیلے سب کے سب حسن و خوبصورتی کے استعارے ہیں۔
مگر خدا کی قدرت دیکھے کہ یہاں زندگی کی سب سے قیمتی اور بنیادی ضرورت پانی کی کمی ہے۔ یہاں پر زندگی کا انحصار محض بارشوں پر ہے۔ جب بارشیں نہیں ہوتی تو زندگی امتحان بن جاتی ہے۔ ایسا ہی اس بار ہوا اور صحرا تھر کے علاقے اس بار بھی بارانِ رحمت سے محروم رہ گئے.یوں تو ہر سال ہی تھر پاکر میں خوراک کی قلت ہوتی ہے,لیکن کبھی کبھار صورتِحال بہت سنگین ہو جاتی ہے۔ بارش نہ ہونے کی صورت میں کئی بار تھر کو پہلے سے ہی آفت زدہ قراردیدیا جاتا ہے، مگر اس بار ایسا نہیں ہوا.تھر کے مکین بھوک, پیاس, اور بیماریوں کی دلدل میں پھنس گئے.
Thar Desert Drought
خشک سالی سے پورے علاقے پر موت کے سائے لہراتے رہے. مور اور اونٹوں کے جگہ جگہ بکھیرے ڈنحاچے اس صحرا کی امتحان نما زندگی پر بین کرتے رہے. اشیائ خوردونوش کی کمی کے باعث بھوک انسانی زندگی نگلنے پر مجبور ہو گئی.متاثرہ علاقے پر خشک سالی کا یہ شدید وار معصوم بچے برداشت نہ کر سکے,صحرا کی بنجر زمین میں یہ صحرائی پھول دفن ہو گئے,اور کچھ مر جھائے ہوئے امداد کے منتظر نظر آتے ہیں۔ آگ برساتے آسمان تلے سلگتی ریت پر چیتھرروں میں لپٹے ننگے پاؤں مرد,عورتیں, اور یہ معصوم بچے زرا سے پانی کے لئے جگہ جگہ بھٹک رہے ہیں۔
زندہ رہنے کے لئے انسان کو کیا کچھ جھیلنا پڑتا ہے کوئی ان سے جا کر پوچھے. جو اپنے مرجھائے بچے ہسپتالوں کے باہر لیے بے یارومددگار بے بس بیٹھے رہے ـکچھ افراد نا قص اقدامات سے مایوس ہو کر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے ان کا کہنا تھا کہ اگر مزید رکے تو بھوک کی یہ دلدل ان کے بچے بھی نگل جائے گی۔
Thar Desert Hunger
بھوک,افلاس, پیاس, سوزگداز کے یہ منظر دیکھ کر دل خون کے آنسو رویا…کیا یہ بھی انسان ہیں ؟ اگر انسان ہیں تو انکی قسم کون سی ہے ؟ کیا انسانی جانوں کی قسمیں ہوتیں ہیں ؟ اگر ایسا کچھ ہے تو انکی قسم یقیناً غربت وافلاس ہو گی,کیونکہ افسوس, اس ہی قسم کی جانوں کی قیمت تدبیرات میں اربابِ اختیار کی تاخیر اورچند رسمی جملوں کی تعزیت کے سوا کچھ نہیں لگتی.اور یہ ایک غریب ہی کی جان ہو سکتی ہے۔ مگر ماضی کی یاد لییپرامید ہوں کہ ہر بار کی طرح بفضلِ خداوندی تھرپارکر پھر سے انگڑائی لے گا۔
جب بارشیں پڑییں گی کالی گٹائیں جب امڈ امڈ کے آئیں گی تو تھر پارکر جہاں کو اپنے حسن میں پھر سے جکڑ لے گا,ہر سو ہریالی اور سبزہ کا سیلاب نظر آئے گا,کھیت کھلیانوں سے آنے والے لوک گیتوں کی سریلی گونج, بانسری کے مدھر سر, مور کا حسین رقص, مال مویشی کے گلوں میں بندھی ہوئی گھنٹیوں کی مدہوش کر دینے والی آوازیں آپ کو اپنی طرف کھنچیں گیں اور اس موقع پر وہ مصرعہ یاد آے گا .. بہار آئی کہ ایک بار پھر لوٹ آئی..!