میرے سامنے ریما جمال لڑکی سے لڑکے کا سفر کر کے بیٹھا تھا میں سراپا تجسس بنا اُس کو مردانہ روپ میں دیکھ رہا تھا جس کے انگ انگ سے نسوانیت پھوٹتی تھی جس کی حرکات سے نسوانیت ٹپکتی تھی جو ہر مد مقابل پر اداوں کی یلغار کر دیتی تھی جو بضد تھی کہ میں مرد نہیں لڑکی ہوں میں نے بھی کئی سال لگائے اُس کو سمجھانے اور را ہ راست پر لانے میں وہ غلاظت فحاشی جسم فروشی ناچ گانا گدا گری عورتوں والی حر کتیں چھوڑ کر نارمل زندگی گزارے لیکن وہ بضد تھی جس کو میں اگر کبھی لڑکا کہہ کر بلاتا تو ناراض ہو جاتی اور آج خود ہی نسوانیت کا لبادہ اتار کر نااور ادائوں کی حرکات ترک کر کے میرے سامنے بیٹھا تھا وہ جس کو چہرے کے بالوں سے شدید نفرت تھی جیسے ہی کوئی بال اُس کے چہرے پر نمودار ہو تا ہر پہلی فرصت میں اُس کو اکھاڑ کر سانس لیتا آج چہرے پر گھنی سیاہ مونچھیں سجائے بیٹھاتھا وہ میرے لیے خوشگوار حیرت کا باعث تھا اِس مردانہ روپ میں وہ مجھے حیران کر چکا تھا پہلے جب یہ بولتا تھا لفظ لفظ انگ انگ سے نسوانیت کا اظہار ہوتا لیکن آج اِس نے نسوانیت کے سارے اوزار اتار پھینکے تھے پورا جواں مرد تھا اِس کی زندگی میں کو نسا واقعہ حادثہ کر شمہ معجزہ ہوا کہ ناممکن کام ہو گیا کیونکہ جب سے میں روحانی زندگی میں داخل ہوا ہوں اور خدا ئے عظیم نے مُجھ فقیر سے خدمت خلق کا کام لینا شروع کیا ہے تو میرے پاس شرابی کبابی زانی چور ڈکیت جرائم پیشہ انسان بھی آتے ہیں ان کو میں جب بھی ذکر اذکار پر لگاتا ہوں تو اسماء الحسنی کی برکات سے سخاوت کرانے سے اِن میں جلد ہی تبدیلی کے اثرات شروع ہو جاتے ہیں اِن میں سے اکثریت گناہوں سے تائب ہو کر نیکی کی طرف رجوع کرجاتے ہیں اِن میں سے بعض کی تبدیلی اور نیکی کا سفر اتنا شاندار ہو تا ہے کہ یہ بڑے بڑے عبادت گزاروں متقی پرہیز گاروں کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔
چند دن کے اذکار عبادت اور سخاوت کے بعد گناہوں کے بادل چھٹنا شروع ہوتے ہیں پھر ایسے عادی گناہ گارو کو چہ عیش وعشرت فحاشی لذت سے ایسے مڑتے ہیں کہ دوبارہ کبھی مُڑ کر اُس کی طر ف نہیں دیکھتے لیکن جب بھی میرے پاس تیسری نسل کے یہ لوگ ہیجڑے آتے ہیں تو میں وہی فارمولا اِن پر بھی آزماتا ہوں لیکن تبدیلی اور نیکی کے جو اثرات باقی لوگوں پر دنوں میں نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں اِس گرو پ پر بہت کم یا دیر سے آتے ہیں یہ تبدیلی کی طرف آنے سے انکاری ہو تے ہیں یا پھر چند دن بعد ہی واپس گناہوں کی دنیا میں لوٹ جاتے ہیں بہت کم خوش نصیب ہے ایسے ہو تے ہیں جو لذت گناہ کی دنیا کو مستقل طور پر چھوڑتے ہیں اِس سارے پس منظر کی وجہ سے میں سراپا حیرت اور تجسس بنا جمال کو دیکھ رہا تھا جو مکمل تبدیلی کے عمل سے گزر کر مکمل مرد کے روپ میں میرے سامنے بیٹھا تھا اب میں نے اُس سے پوچھا یار جمال یہ انقلاب کیسے رونما ہوا کہ تم ریما سے جمال بن گئے تو وہ مسکراکر بولا پروفیسر صاحب اِس کاکریڈٹ آپ کو اور اولیا کرام کے مزارات کو جاتا ہے جہاں آپ مجھے بھیجا کر تے تھے پھر اُن تسبیحات کا بھی رول ہے جو میں اللہ کے ناموں کی کرتا تھا لیکن اصل انقلاب کرونا کے دوران آیا آپ کو یاد ہے جب کرونا میں سارا پاکستان بلکہ پوری دنیا لاک ہو گئی تھی تو ہمارا تو کام ہی ناچ گانے اور سڑکوں پر گداگری سے تھا۔
ہماری کمائی کا ذریعہ ہی یہی تھا اِس کے لیے ہمیں کو ئی کام آتا ہی نہیں تھا لاک ڈائون ہوا تو میں اپنے گرو اور چار ساتھیوں کے ساتھ ایک کمرے میں قید ہو گیا تھوڑی بہت جمع پونجی تھی جو چند دنوں میں ہی ختم ہو گئی تو ہماری تو گزر اوقات روزگار کمائی ہفتہ وار فنکشنوں پر تھی لاک ڈائون کی وجہ سے جب یہ بند ہو ئے تو ہمارے کمرے میں بھوک نے ناچنا شروع کر دیا اِس دور میں اگر ہم سے کوئی روڈ پر نکلتا تو پو لیس ڈنڈے مار کر بھ گا دیتی دوسرا لوگ بھی گھروں میں قید ہو گئے تھے اگر کوئی ایمر جنسی میں سڑک پر آتا بھی تو کرونا کے خوف سے گاڑی کا شیشہ بند رکھتا کہیں اُس پر کرونا حملہ نہ کر دے اِس طرح ہماری کمائی کے سارے راستے بند ہو گئے اِبھی یہ مصیبت جاری تھی کہ ایک ساتھی کو کرونا ہو گیا تو وہ کرونا کا تحفہ لے کر کمرے میں آگیا اب ہم سب کرونا کے مریض تھے ہم لوگ جوان تھےs ہمارے جسم کرونا کا مقابلہ کر رہے تھے لیکن ہمارے گرو کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ تھی جس کو ہم پالتے تھے کرونا نے جب اُس کے بوڑھے جسم پر حملہ کیا تو اُس کی سانسیں اکھڑنے لگیں موت اُس کے قریب آنے لگی ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا دوائی کہاں سے لیتے ویسے بھی ہم اگر کسی ہسپتال چلے جائیں تو کون ہمیں داخل کرتا ہے تو آپ کو یاد ہے میں نے آپ کو فون کیا تھا کہ گرو جی بہت بیمار ہیں اُن کے لیے دوا کریں اور ہماری مدد کریں پھر آپ نے اپنے ایک دوست کو میرا نمبر دیا تو وہ نیک انسان اُسی دن بہت ساری دوائیاں لے کر ہمارے کوٹھے پر آ گیا وہاں پر جب اُس نے بھوک افلاس کو ناچتے دیکھا تو بہت دل گرفتہ ہوا اُسی وقت گیا اور بہت سارا راشن لاکر ہمیں دے گیا۔
اگلے دن ڈاکٹر کو لے کر آیا تو ڈاکٹر نے کہا گروجی کو فوری آکسیجن سلنڈر کی ضرورت ہے لہذا آپ کا دوست ہمیں آکسیجن سلنڈر دے گیا ساتھ میں طریقہ بھی بتا دیا اپنا فون نمبر دیا کہ کسی بھی چیز کی ضرورت ہو فون کر نا میں حاضر ہو جائوں گا گرو جی موت وحیات کی کشمکش کے بعد پندرہ دن بعد صحت مند ہو نا شروع ہو گئے ہم لوگ جوان تھے ہم گروسے پہلے ہی صحت مند ہو گئے جب گرو صحت مند ہو گیا تو جس نے ہمیں ساری زندگی انسانوں کی نفرت کے قصے سنائے تھے آپ کے فرشتہ نما دوست سے بہت متاثر ہوا جس نے ہم سے نفرت نہیں بلکہ پیار کیا جب ہم موت کے قریب پہنچ چکے تھے ہمیں زندگی کی طرف واپس لایا کرونا کا لاک ڈائون طویل سے طویل ہو تا گیا دو ماہ گزر گئے تو گرونے ایک دن آپ کے دوست سے کہا آپ ہماری مدد کیوں کر رہے ہو ہم تمہارے لیے کچھ بھی نہیں کر تے تو دوست نے کہا اِس لیے کہ آپ اللہ کی مخلوق ہو چار ماہ گزر گئے فرشتہ نما انسان ہمیں ہمارے کمرے میں لگاتار راشن اور دوائیاں پہنچاتا رہا تو ہمیں پہلی بار احساس ہوا کہ اِس دنیا میں سارے ہمیں دھتکارنے والے نفرت کر نے والے نہیں ہیں پھر ہم مو ت کی دہلیز سے واپس آئے تھے گرو نے فیصلہ کیا ہم گناہ کی زندگی چھوڑ کر شرافت نیکی کا راستہ اپنائیں گے پہلا کام یہ کیا کہ زنانہ لباس عادتیں چھوڑ کر مردوں کا روپ اپنایا ‘ گروہ سلائی کا کام جانتا تھا آپ کا دوست ہمیں تین سلائی مشینیں دے گیا ساتھ ہی کسی فیکٹری سے کام بھی لے دیا اِس طرح ہماری روزی کا بندوبست ہو گیا ہمیں کوئی مولوی عالم دین راہ راست پر نہ لا سکا ایک انسان کی انسان دوستی نے ہماری زندگی بد ل کر رکھ دی پھر جمال بہت ساری باتیں کر کے چلا گیا تو میں نے اپنے دوست کو فون کیا اُس کا شکریہ ادا کیا اور کہا یار تم تو سب سے بازی لے گئے تو وہ عاجزی سے بولا یہ صرف انسان دوستی سے ہوا۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org