انسان ترقی کرتے کرتے مریخ سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ لیکن مجبوریاں اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔شاید اس لئے کہ انسان نے رب تعالی ٰ کو بھولا کر انسان ہی کو سب کچھ مان لیا ہے۔آج کا انسان ،انسان ہی کا محتاج ہوکر رہ گیا ہے۔ خداتعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے سے ہٹ گیا ہے۔اب بھٹکنا اس کا مقدر،مایوسی اس کا زیواربن گئی ہے۔انسان کو ہی اپنا آقا،اپنا سب کچھ مان لیا ہے۔اسی سے مانگتا ہے،اسی کے آگے جھکنے لگا ہے۔جب ذلت کا سامان خود کیا ہے تو اللہ تعالیٰ سے شکوے شکایات کیوں کرتا ہے؟خود ہی اپنی خواہشات کا غلام بن بیٹھا ہے۔
پہلی امتوں میں سے کئی سورج کو پوجتے تھے تو کئی گائے کواور کئی چاند ستاروں کو۔کسی نے حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا مانا۔ایک اُمت تھی خالصتا اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب حضرت محمد ۖ کی پیروی کرتی تھی۔جس نے اللہ تعالی اور اس کے رسول ۖمحبوب ۖکی پیروی کی ،ان کے بتائے ہوئے راستوں پر عمل پیرا رہے انہیں انعام و اکرام سے نوازہ گیا۔دنیا میں رتبے ملے اور آخرت میں بھی سرخرو ہوئے۔انہیں جنت کی بشارت دی گئی۔مگر افسوس!جب اسی امت میں سے جس نے اپنے محبوب آقا حضرت محمد ۖ کے احکامات،فرمان کو بھولادیا زمانے میں رسوا ہوئے۔معاشرے میں ذلیل و خوار ہوئے۔
گردشیں ،مصبتیں،آفات ان کی جان نہیں چھوڑتی۔جب سچائی کے راستے سے بھٹکتے ہیں تو ناکامی،رسوائی،ذلت ان کا مقدر بن جاتی ہے۔جس کے حضور سجدہ ریز ہونا چاہیے تھا،اسے تو بھولے سے بھی سجدہ نہیں کرتے۔مسجدیں بنانے کا شوق تو ہے مگر ان میں عبادت کرنے نہیں جاتے۔خداتعالیٰ کی بنائی ہوئی خدائی کے آگے سر بسجود ہیں۔ان سے مانگتے ہیں۔ان کو مانتے ہیں،ان سے طلب کرتے ہیں۔گمراہ ہو کر زندگی خوار کر رہے ہیں۔جو بن مانگے دیتا ہے اس کی طرف رجو ع نہیں کرتے۔
انسان کتنا ناشکرا ہے۔ہزاروں نعمتیں پا کر بھی شکوے شکایات کرتا ہے۔اس کی زبان شکایت کے انبار تلے دب گئی ہے۔جس زبان سے اس ذات کا ذکر ہونا چاہیے تھا،اسی زبان سے شکوئے کرکے گناہوں میں اضافہ کرتا جاتا ہے۔ہوس،حرص اس کی رگ رگ میں سما گیا ہے۔لالچ،بدیانتی کے جراثیم اس کے خون میں رچ بس گئے ہیں۔اب بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔کھاتا تو حرام کھاتا ہے۔چلتا ہے تو گناہوں کی طرف،شراب کھانے کی طرف۔دیکھتا ہے تو بُرائی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔خود کو نیک ،پرہیزگار اور دوسروں کو بُرا گردانتا ہے۔
Protest
تعریف اپنے لیے اور تنقید دوسروں پر ،دوسروں کی اصلاح تو کرتا ہے مگر اپنا اندر جھانک کر نہیں دیکھتا۔اپنے آپ کو نہیں دیکھا ،میں کیا ہوں ،اور کیا ہو چلا ہوں۔ ملک قرض میں ڈوبا گیا ہے۔کرپشن عام ہو گئی ہے۔نوکریاں رشوت پر ملتی ہیں۔ حکمران اپنی تجوریاں بھرتے رہتے ہیں۔ ہمیں کنگال کردیا ہے۔ہم روٹی کو ترس گئے ہیں۔ سارے الزام برسراقتدار لوگوں پر تھوپ دیتے ہیں۔سوال یہ ہے ان لوگوں کو اقتدار تک پہنچایا کس نے ہے؟۔ان کو ووٹ کس نے دیئے۔؟ آپ سب نے ،ہم نے،پھر رونا کیسا، احتجاج کیسا،دھرنے کیسے ،روڈ بلاک،ہرتالیں کیسی،جلائو گھرائو کیوں۔اپنے مفاد کی خاطر اپنوں کو ہی کیوں مار رہے ہیں۔؟
اللہ تعالی نے تو فرما دیا۔جس طرح کی قوم ہوگی ویسے ہی حکمران ہوں گے۔ہم دوسروں کی خامیاں ڈھونڈتے پھرتے ہیں ،اپنے من میں جھانک کر دیکھا ہی نہیں۔چور تو اپنے من میں چھپا ہے اور ڈنڈورہ شہر بھر میں کیوں پیٹتے پھرتے ہیں۔محتاجی کا کشکول تو خود گلے میں ڈال لیا ہے، مجبوریاں انسان کو ناکوں چنے چبو ا دیتی ہیں۔مانتے ہیں بات ٹھیک ہے مگر کبھی یہ سوچا ہے کہ ان مجبوریوں کے پیچھے کیا محرکات ہیں۔آج انسان ہی انسان کے آگے ہاتھ پھیلائے کھڑا ہے۔
یہی ہاتھ اگر خداتعالی کے آگے دعا کے لئے اٹھے ہوتے تو مجبوریاں جنم ہی نہ لیتی۔جس نے خدا کو بھولا دیا ،اسے کچھ یاد نہیں رہتا ،وہ جنت کا راستہ بھول گیا۔زمانہ نشان عبرت بنا دیتا ہے۔بھٹکنا ان کا مقدر ،رونا ان کا نصیب بن جاتا ہے۔تب بیماریاں اسے اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں ۔ناشکرا انسان پھر بھی رب کی طرف رجوع نہیں کرتا۔رب تعالی تو بیماریاں،مصبیتں،آفات دے کر انسان کو آزماتا ہے۔یوں سمجھیں جھٹکے لگواتا ہے کہ شاید بھٹکا ہوا انسان سنبھل جائے اور میری طرف لوٹ آئے۔لیکن جن کے دلوں پر رشوت،بددیانتی،کرپشن کے قفل لگے ہوں وہ کیا سنبھلیں گے۔جن کے من مردہ ہو چکے ہوں۔دل زنگ آلودہ اور زبان ناپاک ہو گئی ہو۔آنکھیں رکھتے ہوئے بھی اندھے ہو جائیں ،سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی انجان بنے رہیں ۔ان کیلئے تو عذاب ہی ہے۔
مجبوریاں ان کا مقدر ہوں گی۔فحاشی ،عیاشی کا دل دیدہ انسان اپنی عزتوں کا پاس نہیں رکھ سکتا۔اللہ تعالیٰ زمانے میں اسے سزا دے دیتے ہیں۔رب تعالیٰ نے ہمیں کیا کچھ نہیں دیا۔جنت نظیر وطن،اس جنت کو دیکھنے کے لئے آنکھیں عطاکیں۔کیا ان آنکھوں کا قرض اتار سکتے ہو۔ان کی قیمت ادا کر سکتے ہو۔نہیں ناں۔پھر یہ آنکھیں گنا ہ کی طرف کیوں اٹھتی ہیں۔یہ آنکھیں گناہوں کا راستہ کیوں دیکھاتی ہیں۔یہ آنکھیں مسجد کا راستہ کیوں نہیں دیکھاتی ۔اسی طرح ،ہاتھ ملاوٹ کیوں کرتے ہیں،ان ہاتھوں سے دوسروں کی بیٹیوں کے آنچل کیوں برباد کرتے ہو۔یہ ہاتھ اپنے سے کمزور پر کیوں اٹھتے ہیں۔اسی طرح جسم کا ایک ایک حصہ نعمت ہے۔رب تعالی کی نعمیتں پا کر نافرن کیوں بن گئے ہیں۔
لمحہ بھر کے لئے تو سوچیں اگر اللہ تعالی یہ نعمتیں واپس لے لیںتو تمھارا کیا ہوگا۔کسی چوراہے پر بھیگ مانگتے ہوئے ہاتھوں سے معذور کو دیکھنا، جن کے پائوں نہیں ہوتے ،جو سن نہیں سکتے اور تو اور جو دیکھ نہیں سکتے۔ ایسے لوگوں کو دیکھ کر تم پھر بھی نہیں سنبھلتے۔وقت قیامت قریب ہے در توبہ کھلا ہے۔،توبہ کرلیں۔کیا پتہ کل توبہ کا وقت ہی نہ ملے اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں۔