احادیث قدسیہ

Ahadees E Qudsiya

Ahadees E Qudsiya

تحریر : شاہ بانو میر

“”سورت المجادلہ””
جو تم میں ایماندار ہیں اور جن کو علم ملا
اللہ ان کے درجے بلند کرے گا
اور
اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے
“”سورت طٰہ “”
پروردگار مجھے اور زیادہ علم عطا فرما

ذرا حضرت موسیٰ ؑ کو کوہ طور پر یاد کریں
آگ لینے گئے تھے پیغمبری لے کر آگئے
سبحان اللہ
اللہ کا کلام کرنا
کیا کیفیت ہوگی ایک عام انسان کی جب اسے نبوت کے درجے پر براہ راست اس کا رب فائز کرے
انہیں بات کرنے سے پہلے آداب سکھائے گئے
پاک وادی طویٰ میں جوتے اتروائے گئے کہ سب سے عظیم ہستی سے مخاطب ہونا ہے
سبحان اللہ
“”رب سے بات کرنا کیا شان کیا مقام ہے ان کا “”
آج ہمیں بھی اللہ سبحانہ تعالیٰ نواز رہا ہے
اپنی باتیں پڑھنے کیلیۓ
کیا ہم اپنی ذات کی شان یہ باتیں پڑھ کر سمجھ کر عمل کر کے نہیں بڑہائیں گے؟
استاد کیا نعمت ہیں سبحان اللہ
ہر گھر میں کتابیں کسی نہ کسی شکل میں ضرور موجود ہوتی ہیں
کچھ لوگ شوقین بھی ہوتے ہیں پڑھتے بھی ہیں
لیکن
کچھ عرصہ استادوں کی مبارک صحبت میں رہ کر یہ سمجھا ہے کہ
کتاب خاموش ہے اس کو زباں استاد عطا کرتا ہے
اچھا استاد اخلاص کی ذمہ داری سے جب اس کتاب کو شاگرد پر کھولتا ہے
تو
ہو نہیں سکتا کہ شاگرد کی زندگی میں تلاطم بپا نہ ہو
ضرورت اس امر کی ہے کہ شاگرد کو علم خاص طور سے دین جیسے علم کی اہمیت کا پتہ ہو
استاد کی نعمت سے بھرپور فائدہ اٹھا کر
وہ اللہ کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش کرے
اپنے رب کی رضا چاہتا ہو
پھر
یہ دین اس کے دل میں تہ در تہ جم جاتا ہے
اور
دنیا کی تمام جمی ہوئی کائی زدہ تہیں نکال باہر کرتا ہے
دل کو فکر سے شعور سے پرنور کرتا ہے
اور
طلب کی مقدار بڑہتی ہی چلی جاتی ہے
ہدایت اللہ کا وہ خوبصورت تحفہ ہے جسے وہ صرف طلبگار کو عطا کرتا ہے
بہت کم ایسا ہوا ہے کہ بغیر طلب کے ہدایت ملی ہو
اس کی قدر کرنی ہوگی بہت غیور مہمان ہے
قدر نہ ہو تو اپنی راہ لیتا ہے
زندگی بہار بن جاتی ہے جب اللہ کی نعمت “”علم”” انعام کی صورت یہ استاد عطا کرتے ہیں
اس پر شکر ادا کیا جانا چاہیے
ورنہ ان بند کتابوں کو کھول کر بھی نہ شعور جاگتا ہے اور نہ ایمان بڑہتا ہے
جب تک کہ ایک اچھا استاد اسے بیان نہ کرے
الحمد للہ
اپنےا ستادوں کی قدر بھی ہے اور تشکر بھی
ان کی رفاقت نے زندگی کو یکسر بدلا ہے
اللہ ان سب پر خاص رحمتیں اتارے اور علم کا یہ روشن سفر جاری و ساری رہے
آمین
اللہ سبحان و تعالیٰ کی توفیق سے پیاری استاذہ محترمہ “” آ۔۔ ز”” کے توسط سے
“” احادیث قدسیہ “” پڑھنے کی توفیق عطا ہو رہی ہے
ایسی استاذہ زندگی میں شامل ہوں تو انسان اپنے دین کیلیۓ کچھ نہ کچھ ضرور کر لیتا ہے
جتنا جزبہ جتنی تڑپ ان کے دل میں دین کیلئے اس امت کیلئے ہے
الفاظ میں بیان ناممکن ہے
اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اگر برائی کی بہتات کر دی ہے تو
ہمارے استاذہ کرام کی صورت فلٹر جس سے برائی میں تخفیف ہوتی ہے
جہاں جہاں یہ موجود ہیں
وہاں وہاں دین کا حیرت انگیز کام دیکھنے کو مل رہا ہے
صحیح بخاری کا سفر جاری ہے
وہ ابھی مکمل نہیں ہوئی وہ بھی اپنی ستاذہ کے ساتھ مکمل کرنی ہے انشاءاللہ
مگر
اللہ نے مزید علم کی شاخ پھیلانے کا وقت مقرر کر دیا
لہٰذا
اس سے کوتاہی نہیں کرنی
انشاءاللہ
احادیث قدسیہ شروع کر چکے ہیں
الحمد للہ
احادیث قدسیہ کی شان کیلئے یہی کافی ہے
کہنے والی ہستی لا الہ الا اللہ ہے
اور
ہم سے بیان کرنے والی عظیم ہستی
محمد الرسول اللہ ہے
اس سے بڑھ کر کیا قدر و منزلت کسی کلام کی ہو سکتی ہے؟
سوچیں
اپنی خوش نصیبی
رب عظیم کی باتیں سب سے بلند مرتبہ نبیﷺ کی زبان مبارک سے
سوچیں
ہم اس قابل ہیں؟
آسمان سے اتری باتیں صدیوں کے بعد اللہ نے ہمارے مقدر کیں؟
اللہ اپنے کلام تک ہدایت تک عمل تک ہر کسی کو رسائی نہیں دیتا
آئیے
اپنی حیثیت کو جانچیں رشک کریں اپنی زندگی پر
شعور سے عاجزی سے اخلاص سے
اللہ کے حضور اب تک کی سستی کاہلی کی معافی مانگیں توبہ کریں
اور
اس سنہرے موقعے سے مکمل فائدہ اٹھائیں
زندگی عارضی ہے کب کہاں کس وقت کس کی باری آ جائے کوئی نہیں جانتا
ابھی ہاتھوں میں طاقت ہے ذہن میں جذب کرنے کی صلاحیت ہے
جسم میں کوشش کی سکت ہے
دل سمجھنے کی طاقت رکھتا ہے
جسم عمل کی توانائی رکھتا ہے
اور کیا چاہیے؟
اپنے رب کی مدد مانگتے ہوئے آئیے حدیث قدسی کو سمجھتے ہیں
احادیث قدسیہ کا مختصر تعارف کچھ یوں ہے
کہ
قرآن پاک میں بیان کردہ ہر حرف اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرف سے ہے
اس کے معنی بھی اللہ پاک نے خود سمجھائے
جبکہ
احادیث قدسیہ میں فرامین اللہ کے ہیں مطالب و معنی بھی اللہ پاک کے ہیں
مگر
یہ تمام تر ارشادات آپﷺ کی”” زبان مبارک”” سے ارشاد ہوئے
یہ علم عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہے اور اگر کبھی کہیں سنتے بھی ہیں تو
کچھ تردد کا شکار ہوتے ہیں سمجھ نہیں پاتے کہ یہ اصل میں کیا ہے؟
زندگی میں یہ خاص نعمت اگر ہم پر اتری ہے تو
آئیے استفادہ حاصل کریں
اس کتاب کو پڑھ کر اپنے عمل میں تبدیلی لائیں
اپنے رب کی باتیں سمجھ کر انہیں زندگی میں شامل کریں
اس سے آسان طریقہ علم کے پھیلاؤ کا اور کسی طرح سے ممکن نہیں
زندگی کے دھوکے میں سے کچھ سچے پل نکالیں اور علم حاصل کر لیں
کون جانتا ہے ؟
کل جب میزان میں کچھ کمی ہو تو یہی”” کتاب”” فرشتے یہ کتاب پلڑے میں ڈالیں
تو
نیکیوں کا ہلکا پلڑا اس کتاب سے وزنی ہو کر جھک جائے اور نجات کا باعث بن جائے
وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر