تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی میں بوجھل رنجیدہ دل لیے اپنے مرحوم دوست کے گھر سے نکل آیا واپسی پر اس غم نے ہمیشہ کی طرح مجھے ہلکان کیا ہوا تھا کہ مادیت پرستی کی عالمگیر تحریک نے کس طرح وطن عزیز کے انسانوں کو بھی خوفناک عفریت کی طرح ہڑپ کر لیا ہے۔ مرحوم دوست کی پراپرٹی اور گاڑیوں کی بندر بانٹ دیکھ کر شدت سے احساس ہوا کہ انسان پتہ نہیں کہاں کھو گیا ہے یا انسان مردار خور جانور میں تبدیل ہوگیا۔ محبت پیار رواداری قربانی اور ایثار جو کبھی ہمارے معاشرے کا حقیقی حسن تھا وہ کب کا زمین میں دفن ہو چکا مادیت اور شہرت کی دوڑ میں دوڑتے دوڑتے انسان اب انسان نہیں رہا بلکہ گدھ میں تبدیل ہوچکا ہے۔
اچھے انسان کی تلاش ہر دور میں رہی ہے ماضی میں مولانا روم بیان کرتے ہیں دن دیہاڑے کوئی شخص ہاتھ میں چراغ لیے کچھ ڈھونڈ رہا تھا اور وہ بھی بھرے بازار میں لوگوں نے حیرت سے دیکھا کہ سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے پھر بھی یہ شخص چراغ جلائے کس کو ڈھونڈ رہا ہے اور جب کسی نے اُس سے پوچھا کہ آپ کس کی تلاش میں ہیں تو وہ بولے ”انسان” اُس کی بات سن کر لوگ مسکرا دئیے اور بولے یہ ہجوم جو انسانوں کا نظر آرہا ہے یہ کافی نہیں تو وہ اہل ِ نظر بولا جس کو میں دیکھنا چاہتا ہوں وہ نظر نہیں آتا اور جنہیں میں دیکھنا نہیں چاہتا وہ سامنے موجود ہیں۔ یہ مسئلہ کسی نہ کسی طرح ہر دور میں رہا شاعر مشرق علامہ اقبال کو بھی قافلہ حجاز میں۔۔۔حسین۔۔۔ کی تلاش رہی اور مرزا غالب بھی اِس کا اظہار اِس طرح کرتا نظر آیا۔
سخت دشوار ہے ہر کام کا آسان ہونا آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا۔
میرا تعلق دیہی پس منظر سے ہے جب شعور نے آنکھ کھولی تو وطن عزیز کے مشہور لوگوں کا میں بھی فین تھا اور جب قدرت نے اِن عظیم مشہور لوگوں سے ملنے کے مواقع دئیے تو شدید حیرت ہوئی کہ یہ بڑے لوگ کردار کے کتنے چھوٹے نکلے، کئی عالم دین اِیسے ملے جن کے پاس حقیقی کردار اور علم کے علاوہ سب کچھ تھا ایسے ایسے نامور شاعروں سے ملاقات جو سالوں سے دل میں مچلتی تھی اور اُن کی شاعری ایسی کہ ایک ایک شعر پر وجدانی کیفیت اور جب ملاقات ہوئی تو نہ کردار نہ اخلاق جن کے منہ سے ریشمی لچھوں کی طرح الفاظ نکلتے تھے وہ پتھر سے بھی سخت دل نکلے اور پھر بہت سارے ایسے خطیب جن کی خطابت اور لفاظی شہرت کا ڈنکا چار دانگ میں پھیلا ہوا تھا ۔ جب قریب ہوئے تو اُن کی بے کرداری دیکھ کر شدید کراہت کا احساس ہوا اور پھر وطن عزیز میں تصوف کے اُن بڑے صوفیوں سے جب ملاقات ہوئی جن کے چہرے نور و روشنی سے چمکتے ہیں قریب ہوئے تو کُچلے سے بھی کڑوے نکلے اور پھر دانشور کالم نگار اور بڑے ادیب الفاظ اور فقرے دیکھو تو سبحان اللہ اور کردار دیکھو تو معاذ اللہ مجھے اُس وقت شدید حیرت ہوئی۔
Problem
جب ایک بوڑھے خطیب میرے پاس کوئی سفارش لے کر آئے کہ میں بہت بڑے مسئلے سے دو چار ہوں میں نے بہت احترام اور ادب سے پوچھا جناب بتائیں یہ مشتِ غبار آپ کی کیا مدد کرسکتا ہے تو اُس وقت میرے پائوں تلے سے زمین نکل گئی جب انہوں نے کہا کہ اُنہیں اپنی نوجوان طالبہ جو اُن سے 50 سال چھوٹی تھی عشق ہوگیا ہے آپ کوئی ایسا وظیفہ یا عمل بتائیں کہ وہ بھی ہماری محبت میں گرفتار ہو جائے مجھے اُن کی شخصیت اور بڑی توند سے بہت گھن آئی اور پھر ستر سالہ شاعر اور ادیب جن کی شاعری اور کتابوں کا ایک زمانہ معترف ہے میرے پاس آیا میں خود بھی عرصہ دراز سے اُن کی تصنیفات اور شاعری کا دیوانہ تھا انہوں نے جب ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تو میں عقیدت و احترام کے چراغ اپنے چہرے پر جلائے خود اُن کی چوکھٹ پر احتراماً حاضر ہوا تو اُنہوں نے بھی اِس عمر میں دو نوجوان لڑکیوں کی بے وفائی کا رونا رویا وہ دن رات اُن کی واپسی کا انتظار کر رہے تھے مجھ سے کوئی جادوئی عمل کا تقاضہ کر رہے تھے کہ کس طرح وہ دونوں واپس اِن کے پاس آجائیں میں اُن کا دیوانہ تھا بچوں کی طرح میرے سامنے ہاتھ جوڑے بیٹھے رہے کہ میں اُن کے بغیر زند ہ نہیں رہ سکتا۔
کسی بھی قیمت پر اُن کو واپس بلانے میں مدد کر یں اور پھر مجھے شدید جھٹکا اُس وقت لگا جب ایک بہت بڑے دانشور اور ادیب جن کا میں بچپن سے شیدائی تھا مُجھ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا جس دن اُنہوں نے مُجھ سے ملنے میرے گھر آنا تھا مجھے ساری رات خوشی سے نیند نہ آئی اُن کے آنے سے پہلے ہی میں احتراماً دروازے پر کھڑا تھا وہ جیسے ہی آئے تو اُن کے ساتھ ایک نوجوان لڑکی بھی تھی۔ مجھے ملوانے کے بعد اُس لڑکی کو باہر بیٹھا کر مجھے کہنے لگے یہ میرے ساتھ مخلص ہے کہ نہیں ۔ بہت سارے شاعروں ادیبوں کالم نگاروں نے اپنے اپنے گروپ بنا رکھے ہیں یہ ایک دوسرے کے خلاف نان سٹاپ گالی گلوچ کرتے نظر آتے ہیں خود کو تو یہ افلاطون اور سقراط سمجھتے ہیں جبکہ دوسروں کو حقارت سے دیکھتے ہیں۔
یقین نہیں آتا یہ وطن عزیز کے مشہور و معروف کالم نگار یا دانشور ہیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے یہ انسانیت کی آخری حدوں سے بھی گزر جاتے ہیں اِن کے قول و فعل کے تضاد کو دیکھ کر شدید حیرت ہوئی کہ اللہ تعالی نے اِن کو شہرت کے ہمالیہ پر بٹھا رکھا ہے لیکن یہ عاجز اور شاکر ہونے کی بجائے خود پرستی اور غرور کے اُس مرض میں مبتلا ہیں کہ جس کا انجام ہر دور میں خوفناک اور عبرت ناک ہی دیکھا گیا ۔ میرے پاس روزانہ بہت سارے دوست ایسے آتے ہیں جو یہ تقاضہ کرتے ہیں کہ کسی زندہ ولی سے ملاقات کرنی ہے کوئی بڑا آدمی جس سے مل کر دلی اور روحانی سکون نصیب ہو۔ تو میں ایسے دوستوں کی خدمت میں عرض کروں گا کہ ضروری نہیں کہ بڑے لوگ یا انسان اونچے ایوانوں میں ملتے ہوں یہ کچے جھونپڑوں میں بھی مل جاتے ہیں۔
Sufi
ہم صوفیوں کو درباروں مزاروں مسندوں حجروں اور خانقاہوں میں ڈھونڈتے ہیں جبکہ یہ اہل حق تو ہمیں گلی کوچوں میں بھی مل جاتے ہیں کوئی موچی کوئی ریڑھے والا، کو ئی دکاندار جائز و ناجائز میں امتیاز کرنے والا، ہم علماء کو مکتب و مدرس میں ڈھونڈتے ہیں جبکہ وہ تو ہمارے آس پاس بھی مل جاتے ہیں ایسے معصوم اور نیک لوگ جن کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں ہوتا ان کی زبان اور کردار کے درمیان ایک انچ کا بھی فاصلہ نہیں ہوتا۔ ہمارے معیار کے مطابق جو زیادہ متقی پرہیز گار نوافل کی کثرت وظائف و اذکار اور جبہ دستار میں غرق ہو وہی صوفی ہے جبکہ یہ عام گلی محلوں میں بھی مل جاتے ہیں جن کے دم سے آبادیاں خدا کے غضب سے محفوظ ہیں یہ عام لوگ کہیں بھی دستیاب ہیں۔
ہم نے ہمیشہ بزرگوں کو مریدوں کو نرغے میں گزیوں خانقاہوں مسندوں دریا کے کناروں پہاڑوں اور پہاڑوں کی غاروں میں تلاش کرنا چاہا جبکہ یہ بزرگ تو ہمیں دفتروں ، گلیوں، دکانوں، کارخانوں اور منڈیوں میں حق کے ساتھ کردار دکھا تے نظر آتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کی زبان کبھی حرام سے تر نہیں ہوئی جو کاروبار کرتے ہوئے خوف خدا کا دامن نہیں چھوڑتے یہ وہ مزدور ہوتے ہیں جن کی کمر تو سامان کے بوجھ سے جھک جاتے ہے لیکن اِن کی گردن سوائے خدا کے کبھی کسی کے سامنے نہیں جھکتی۔ یہ وہ عظیم لوگ جن کی آنکھوں میں ہوس نہیں بے غیرتی نہیں اِن کی نیت بھوکی نہیں اِن کے دماغ دنیاوی خدائوں کی عبادت سے خالی ہو کر صرف خدائے بزرگ و برتر کے سامنے جھکتے ہیں۔
اِن کی پیشانیاں صرف رب کائنات کے سامنے جھکتی ہیں ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو بڑی گدی کا وارث ہو جس کے ہاتھ میں زمرد اور سُچے موتیوں کی تسبیح ہو وہ مرشد کامل ہے جبکہ مرشد کامل وہ ہے جس کی زبان سے مخلوق کو راحت پہنچے ہم آسمانوں میں اُڑنے والوں سمندروں پر تیرنے والوں کو بزرگ مانتے ہیں جو ہماری نظروں سے غائب ہو جاتے ہیں جبکہ انسان تو وہ ہے جو انسانوں میں رہتا ہے انسان وہ ہے جس کے پاس سے اُٹھنے کو دل نہ کرے جس کے پاس بار بار جا نے کو دل کرے جس کے پاس بیٹھ کر خدا کی یاد آئے خدا کی معرفت حاصل ہو۔