تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال پاکستان سمیت دنیا بھر میں انسانی یکجہتی کا عالمی دن 20 دسمبر کو منایا جاتا ہے ۔ اس دن کے منانے کا مقصد قدرتی آفات سے متاثرہ افراد کی مددکرنا ،اپنے جیسے غربت اور تنگ دستی کے متاثرین کی مدد کرنا ،انسانوں کے دکھوں میں کام آنا ، وغیرہ ہے ۔اس دن کے حوالے سے انسانی حقوق کی علمبردار سماجی تنظیموں کے زیر اہتمام سیمینارز، اور مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔
اقوام متحدہ کے زیر اہتمام جنرل اسمبلی نے 20 دسمبر 2005ء کو دنیا بھر میں انسانی یکجہتی کا عالمی دن منانے کی باقاعدہ منظوری دی تھی۔ عہد موجودہ میں قدرتی آفات ،انسانوں کی اپنے جیسے انسانوں پر نازل کر دہ آفات ،حادثات ،روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں ۔پوری دنیا میں خانہ جنگیاں ہیں ،قتل و غارت گری ہے ،تباہی وبربادی ہے ۔کہیں بغاوتیں ہیں، کہیں ہوس ملک گیری ہے ،کہیں حقوق حاصل کرنے کی جنگ ہے ،کہیں حقوق غصب کرنے کے لیے جابرانہ نظام مسلط کرنے کے لیے جنگیں ہو رہی ہیں ۔
Newspapers
ذرائع ابلاغ ،اخبارات و رسائل دیکھیں تو پتہ چلتا ہے ۔انسانیت سسک رہی ہے ۔پوری دنیا میں جنگل کے قانون کی حکمرانی ہے اور کمزور پس رہے ہیں ۔اس بات کی سچائی کے لیے آپ گلوبل پر نظر دوڑا کر دیکھیں ۔ہر ملک سے شعلے نکلتے نظر آئیں گے ۔ پاکستان میں بھی تقریباً ہر سال سیلاب آتے ہیں ،جو سینکڑوں کو زندگی سے محروم اورہزاروں لوگوں کو بے گھر کردیتے ہیں۔ ان قدرتی آفات کے نتیجے میں غربت اور ذلت کی گہرائیوں تک جا پہنچتے ہیں، جہاں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ پاکستان میں اب تک سیلاب و زلزلوں سے متاثر ہونے والے لاکھوں افراد جگہ جگہ امداد کے منتظر ہیں ،وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان کی مدد کے بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشی اور اپنی اپنی سیاسی دکان چمکانے میں مصروف ہیں۔اور اس سادگی پر قربان جانے کو دل کرتا ہے۔ جب یہ سیاست دان کہتے ہیں کہ ہم سیاسی دکان چمکانے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی پوائنٹ سکور کرنے کی۔ ہم تو متاثرین کی بروقت مدد کرنا چاہتے ہیں۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کی ریاست اور اس کے مفلوج اداروں ،اور خود غرض سیاسی رہنمائوں کے پاس ان مصائب سے نمٹنے کی اہلیت نہیں ہے ۔
جس سماج میں عدم مساوات ، دولت کی غلط تقسیم ، معاشی بدعنوانی اور سیاسی خود غرضی اور موقع پرستی جیسے رجحانات ہوں ، وہ معاشرہ ترقی یافتہ اور خوشحال نہیں ہوسکتا ۔رشوت ، کام چوری اور جھوٹ ،تکبر یا احساس برتری جو کہ برے ا خلاق کی نشانیاں ہیں ،ہمارے معاشرے میں سرایت کر چکی ہوں، جس سے ملک کا امن و انصاف ختم ہو جاتا ہے ۔ اس کی وجہ آخرت کے خوف کا نہ ہونا بھی ہے ۔ اور یہی وہ بنیادی نکتہ ہے ،جہاں سے معاشرے کی تنزلی شروع ہوتی ہے ۔ غربت صرف اس حالت کا نام نہیں کہ لوگوں کے پاس وافر پیسہ نہ ہو یا روزگار کی کمی ہو۔ ان اداروں ،محکموں ،صاحب حیثیت افراد جن کی ذمہ داری ہے، ان کی ذہنی مفلسی سب سے بڑی غربت ہے غربت کا سبب ہے ۔
Ruling
مثلا َ اگر ہمارے صرف دو حکمران خاندان سابقہ اور موجودہ اپنی تمام تر دولت بیرون ممالک سے وطن لے آئیں ۔یہاں انڈسٹریز لگائیں تو ملک میں لاکھوں بے روز گاروں کو روزگار مل جائے ۔دوسری طرف نظام زر کے غلام بہت سے کاروباری لوگ ذخیرہ اندوزی اور دوسرے ناجائز طریقوں ملاوٹ ،جھوٹ وغیرہ سے انسانی تباہی کو اپنی دولت میں اضافے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔بے روزگاری غربت ، معاشی بدحالی ، جہالت ، بڑھتی آبادسے معاشرہ تکلیف دہ صورت حال سے دوچار ہے ۔اب انسان کی اہمیت جانوروں سے کم سمجھی جاتی ہے ۔انسان کے بچے بھوکے مر رہے ہوتے ہیں، دوسری طرف کتوں کے بچوں کو مربے کھلائے جا رہے ہوتے ہیں ۔ہم میں انسانیت دم توڑ گئی ہے ۔بقول اختر الایمان
کہیں روتے بھٹکتے پھررہے ہیں ، ہر طرف ہرسو غلاظت آشنا ، جھلسے ہوئے انسان کے پلّے
اسلام صرف چند عبادات کے مجموعہ کانام نہیں، بلکہ زندگی گزارنے کے ہر پہلو کے بارے میں واضع ہدایات دیتا ہے ۔ ہم نے اسلام کی تعلیمات کو چھوڑ دیا ۔خاص کر حقوق العباد کو تو ہم عبادت ہی خیال نہیں کرتے ۔اسی وجہ سے ہم میں اتحاد و اتفاق نہیں رہا ،یکجہتی اور بھائی چارہ نہیںرہا،اخوت ،محبت،رواداری،اور ایک دوسرے کا احساس نہیں رہا۔ہم اپنی جڑیں اپنے ہاتھوں سے کاٹ رہے ہیں۔اپنی ملت کو ڈبو رہے ہیں ۔ ہم اتنے خود غرض ہو چکے ہیں کہ ہمیں اپنی ذات کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا ۔ یہ جو دنیا میں انسانیت سسک رہی ہے، ہم سب اس اجتمائی برائی میں برابر کے شریک ہیں۔آئو آج سے ایک عزم کریں ، اتفاق و اتحاد و یکجہتی ، بھائی چارے ،اخوت ، محبت کا عزم ، اور ایک قوم بن کر جینے کی کیونکہ آدمی ہی آدمی کی دوا ہے ۔