آج انسان کس قدر انتشار کا شکار ہے۔ تمام ترقی و خوشحالی، تعلیم اور علم کے سمجھنے اور سمجھانے کے باوجود دنیا بھر کے انسان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اس کرۂ ارض کو نہ ختم ہونے والے فتنوں میں مبتلا کر دینے کی کوششوں میں مصروفِ عمل ہیں۔ دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں جو جنگ و جدل سے پاک ہو۔ خاص کر اپنا وطنِ عزیز! جہاں انسان انسان کو کاٹ نہ رہا ہو۔ جہاں آدم آدم کو لوٹ نہ رہا ہو۔ امیر غریب کو کھائے جا رہا ہے۔ باوسیلہ دنیا بے وسیلہ بستیوں کو اجاڑ رہی ہے۔ تقابلی فلسفہ اپنے تمام تر منفی معنوں کے ساتھ نسلِ انسانی کی تباہ کاریوں میں کسی نہ کسی طرح ملوث ہے۔ کچھ معلوم نہیں کب زیرِ زمین چھپے ہوئے ایٹم بم، سمندر میں تیرتی ہوئی نیو کلیائی آب دوزیں، تابکاری مواد اٹھائے فضاء میں قلانچیں بھرتے طیارے اور خلا میں ہچکولے لیتے مصنوعی سیارے اچانک کسی مہم جو ذہن کی چھوٹی سی غلطی سے اس قافلۂ انسانیت کو آگ لگا دیں۔ اور احسن تقویم کے فارمولے پر پیدا کردہ انسان اپنی ہی بیری اور بد نیتی کے سبب اپنے گھر کو جلا کر خاکستر کر دے۔
انسانیت کو بچانے کی آج جس قدر ضرورت محسوس کی جا رہی ہے شاید اس سے پہلے کبھی نہ کی گئی ہو۔ مختلف یورپی دانشور اور انسانی حقوق کے چیمپئن خود ساختہ تھیوری اور محض انسانی ذہن سے پھوٹنے والی احتیاطوں کو ملحوظِ خاطر رکھ کر انسانیت کے قافلے کو بچانے کی کوششوں میں مصروفِ عمل ہیں لیکن تمام تر خلوصِ نیت کے باوجود انسان دوست ادارے اور حلقے محض اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں اور ان کی حالت ایسی ہے کہ:
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سِرا ملتا نہیں
اُلجھی ہوئی ڈور کا سِرا تلاش کرنے کے لیئے انہیں ہر طرح کے تعصبات سے بالاتر ہوکر صرف اور صرف سچ کو تلاش کرنا ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر انہوں نے مذہب، زبان ، علاقے، رنگ و نسل، اسٹیٹس اور دنیاوی طبقاتی تقسیم کی عینک اُتار کر حق کی تلاش کو نکلیں گے تو پھر انسانیت کے عظیم محسن دنیا جہاں کے لیئے رحمت للعالمین اور صرف مسلمانوں کے لیئے ہی نہیں بلکہ بنی نوع انسان کے غم گسار آخری پیغمبر خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات تک ضرور پہنچ جائیں گے۔ ویسے تو حضورِ انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں پھر بھی کوئی ایسی کتاب اگر ہم ترتیب د ے سکیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا بھر پور تاثر ملتا ہو اور وہ یورپ اور امریکہ کے لوگوں کو پڑھائی جائیں تو میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ جو ذہن گستاخی پر اُتر آئے ہیں وہی ذہن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں اس طرح سرنگوں ہو جائیں گے ۔
جس طرح حضرت عمر تلوار حمائل کئے درِ نبوت پر جھک گئے تھے۔ قافلۂ انسانیت کو درپیش جان لیوا حادثوں، بم دھماکوں، نشانہ وار موت، اور دیگر سے بچانے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان اسوء رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کریں اور مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کو اپنے آپ سے مرعوب کرنے، اور بجائے اس کے ہم عوام و خواص سے دور ہوں انہیں تعلیماتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سادہ اور آسان سے لفظوں میں سمجھا سکیں۔
دنیا میں مختلف النوع شخصیات علم و عمل، دولت و جمال اور قوت و اقتدار لے کر آتی رہی ہیں مگر ہم حضور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں ، اور تا قیامت دیتے رہیں گے ، اس کی ایک وجہ تو ہماری جناب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و عقیدت اور ہمارا ان کے ساتھ رشتہ ایمان میں بندھا ہونا ہے تو دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانیت کو عطا کیا ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے یا بعد میں کسی نے نہیں دیا۔ دنیا کی دوسری شخصیات کو دیکھیں تو سکندر ، رستم و دیگر نامور کمانڈرز جاہ و جلال دکھا کر چلے گئے،کارل مارکس اور لینن جیسے لوگ نظریاتی نعرے دے کر جہاں فانی سے کوچ کر گئے۔ غرض کوئی علمی موشگافیاں دکھا کر چلا گیا کسی نے غلط نظریات میں الجھا کر اسے کمال تصور کیا۔
انسانت کو خاک و خون میں تڑپانے سے لطف حاصل کیا مگر حضورِ اکرم نبیٔ معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انقلاب سے انسانیت کو رہنمائی، امن، ہدایت و نور ملا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات آج کے مہذب انسان کے لیئے بھی اسی طرح مفید اور حیات بخش ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ جس طرح ١٥٠٠ سال قبل کے انسان کے لیئے بھی حیات بخش تھا اور آج کے انسان کے لیئے بھی ویسا ہی حیات بخش ہے۔ ان کی روشنی اور تابانی میں ذرا فرق نہیں آیا۔ اخلاق کی جھلک، کردار کی بلندی، امانت، دیانت اور انسانیت کے لیئے پیار جہاں بھی ہے وہ حضورِ اکرم احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیا ہوا ہے۔ آپ کی بتائی ہوئی باتیں آج بھی بڑے سے بڑا سائنسدان پڑھتا اور ان سے ہدایت و رہنمائی حاصل کرتا ہے اور قلب سلیم رکھنے والے آپ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔
Islam
اسلام کے دیئے ہوئے معاشی، سیاسی، معاشرتی، عدل اور خاندانی نظاموں کا جو بھی حصہ جانے انجانے میں کہیں بھی نافذ ہے دنیا اس کی برکات حاصل ہو رہی ہیں ۔ جانے انجانے اس لیئے کہ جہاں ”جانے”نافذ ہیں وہاں سب کچھ آج بھی ٹھیک چل رہا ہے، اور جہاں” انجانے”جیسے ہمارے وطنِ عزیز میں نافذ ہے یعنی کہ صرف دکھاوے کے لیئے اس پر عمل درآمد کچھ بھی نہیں۔ایسے ملک جہاں اسلام کے دیئے ہوئے نظام کا نفاذ ہے وہ اسلام کی بخشی ہوئی اچھائیوں کے طفیل ہی ترقی کر رہے ہیں۔ کئی معاشرے صرف سچ کی بنیاد پر آگے بڑھ رہے ہیں، بعض ممالک صرف محنت کی بنیاد پر دنیا میں نام پیدا کر چکے ہیں۔ جاپان انسانی حقوق کی بناء پر پہچان بنا چکا ہے۔ اسی طرح معاشرے سے لے کر فرد تک اسلامی تعلیمات کی برکات پھیلتی ہیں۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل افریقہ اور یورپ میں غلام بنانے کے بھیانک مناظر دیکھنے میں آئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ کچھ لوگوں کو دہشت جمانے کی غرض سے بے دردی سے ہلاک کر دیا جاتا اور باقیوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا۔ اور غلامی کی بھی اس حد تک گری ہوئی مثالیں ان لوگوں نے قائم کیں کہ اپنے معزز مہمانوں کے سامنے شراب و شباب سرو کرنے کے بعد ان کے ہاتھوں میں تیر دے دیئے جاتے۔
غلاموں کو سامنے کونے میں بٹھا دیا جاتا اور تیر غلام پر برسائے جاتے۔ جوں جوں غلام تڑپتا تو مہمان محظوظ ہوتے جبکہ سرورِ انبیاء سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زید بن حارثہ سے ایسا سلوک کیا کہ وہ اپنے والد اور چچا کے ساتھ جانے سے انکاری ہوگئے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چِمٹ گئے۔ اس پر تاریخ گواہ ہے کہ نبوت سے پہلے دور میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زید کو کعبے میں لے گئے اور اعلان کیا کہ آج سے زید کو زید بن محمد کہا جائے۔(واللہ اعلم )
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں یہ بھی واضح کر دیا کہ مسلمان کی جان و مال، عزت اور آبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے، اور غیر مسلم لوگوں کو بھی یہ جان کر خوشی ہوگی کہ حدیثِ قدسی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں آگاہ کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ” لوگ میرا کنبہ ہیں” اور قرآن میں اایا ہے کہ جو کوئی ایک انسان کی جان بچائے گا اس نے گویا پوری انسانیت کی جان بچائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے دوسرے حصے میں فرمایا گیا کہ آپ میں کھانے کھلایا کرو۔ ہمیں معلوم ہے کہ درندے، حیوان اور انسان میں فرق یہ ہے کہ درندہ شکار مار کر چیر پھاڑ کرتا ہے۔ اپنا پیٹ بھرتا اور باقی کو وہیں پھینک دیتا ہے۔ حیوان کو جو دیا جائے وہ اسے کھا لیتا اور باقی پر گندگی کر دیتا ہے جبکہ انسان اپنا کھانے کے بعد باقی اپنے بھائیوں دے دیتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اس سے بھی ایک درجہ آگے ہیں۔بس ہمارے لیئے یہیں سے سوچ و فکر کرنے کا لمحہ شروع ہو جاتا ہے کہ ہم لوگ کیا کر رہے ہیں، کس طرف جا رہے ہیں۔ خدارا! سوچیئے۔