تحریر : سلطان حسین ایک بچہ گھر کے باہر بیل بجانے کی کوشش کر رہا تھا ایک شخص وہاں سے گزر رہا تھا اس نے بچے کو مشکل میں دیکھ کر بیل بجا دی اور بچے سے پوچھا ”بیٹا اب کیا کرنا ہے”بچے نے کہا ”کچھ نہیں انکل بس آئیے اب جلدی سے بھاگ چلیں”یہ تو ایک جھوک تھا لیکن اگر یہ حقیقت ہوتی تو اس کے بعد کیا ہوتا اس کا آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں اگر آپ غورکریں اور سوچیں تو آپ کو یہی محسوس ہوگاکہ آج کل دینا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ بھی ایسا ہی جھوک ہورہا ہے کچھ بڑی قوتیں بیل بجاتی ہیں مسلمان ممالک اور ان ملکوں میں مسلمانوں کو آپس میں لڑاتی ہیں اور بھاگ جاتی ہیں اور پھر اپنا اسلحہ فروخت کرتی ہیں اورتماشا دیکھتی ہیں مسلمان ملک اور مسلمان آپس ہی میں لڑتے ہیں اور مرتے ہیں اور اپنے وسائل ان ملکوں سے اسلحے کی خریداری پر صرف کرتے ہیں اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ یہی ملک پھر مسلمانوں کو جاہل’ گنوار’ جنگجو ‘جنونی اور دہشتگرد کہتے اورسمجھتے بھی ہیں انہی قوتوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف ایک فضا بنا دی گئی جس کی وجہ سے مغرب یورپ میں اب مسلمانوں کا جینا دوبھر کیا جارہا ہے مسلمانوں پر حملے ہورہے ہیںاور ان کی مساجد کو بند کیا جارہا ہے کچھ بند ہوچکی ہیں اور جوبند نہیں ہوئیں انہیں بند کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں مسلمانوں کے لئے پوری دنیا میں اس وقت عرصہ حیات تنگ کردیا گیا نہ صرف ان ممالک میں جہاں مسلمان بڑی تعداد میں بستے ہیں بلکہ ان ممالک میں بھی جہاں ان کی تعداد کم ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یورپ جیسے ممالک بھی جہاں مذہبی تنگ نظری اور مذہبی رواداری کی مثالیں دی جا تی ہیں،وہاں بھی مسلمانوں کو دہشت گرد کہا جارہاہے امریکہ، برطانیہ ،فرانس ،کینیڈااور جرمنی جیسے سیکولر اور جمہوری ممالک میں اس وقت مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور خصوصاََمسلم خواتین کے حجاب پر لگاتار حملے ہورہے ہیں۔
برطانیہ میں ایک سروے میں ایسے ایسے انکشافات ہوئے ہیں جس سے پوری دنیا کے مسلمان پریشان ہوگئے ہیں۔ اس سروے کے مطابق چلتی ٹرین میں ایک با حجاب مسلم خاتون پر ایک گروپ نے شراب انڈیل دی اور جب اس خاتون نے احتجاج کیا تو اس کے ساتھ انتہائی بد تمیزی کی گئی اور ہتک آمیز سلوک کیا گیااس نسل پرستانہ حملہ کی شکار خاتون پر نہ صرف انہوں نے شرب انڈیلی بلکہ زور زور سے چلاتے بھی رہے کہ میں نسل پرست ہوں،میں نسل پرست ہوں اور ہمیں یہ سب پسند ہے وہ گروپ جو اس خاتون سے بد تمیزی کررہا تھا اس نے اس پر ہی بس نہیں کیا ،بلکہ با حجاب خاتون سے یہ بھی کہتے رہے کہ کیا خنزیر کا گوشت کھائوگی؟ ٹرین میں کتنے ہی لوگ موجود تھے،مگر کسی نے بھی اس خاتون کی مدد نہیں کی ظاہر ہے کسی با حجاب مسلم خاتون پر اس طرح کایہ حملہ کوئی نیا نہیں ہے لیکن افسوس کی بات تویہ ہے کہ یہ سب ان ممالک میں ہورہا ہے جو بظاہر مذہبی رواداری اور آزادی کا دم بھرتے ہیں کہیں با حجاب خاتون کے سر سے حجاب نوچ لیا جاتا ہے ،کہیں قطار سے نکال کر الگ کھڑا کردیا جاتا ہے ،کہیں جامہ تلاشی اس طرح لی جاتی ہے جیسے کہ اس کو ذلیل کرنا مقصود ہو پوری دنیا میں مسلمانوں اور خصوصاََمسلم خواتین کے خلاف اسلام فوبیا پر مبنی حملوں کا سلسلہ بھی بڑھتا جارہا ہے۔
لندن میں ایک حالیہ سروے میں یہ انکشاف ہواہے کہ صرف برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف جرائم میں 70فیصد اضافہ ہوا ہے دیگر یورپی ممالک میں کیا صورتحال ہوگی اس سروے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے لندن کی میٹرو پولٹین کونسل کے مطابق بھی گزشتہ ایک سال میں مسلمانوں کے خلاف پر تشدد جرائم میں 70فیصد اضافہ ہوا ہے اور اسلام فوبیا کی تقریبا 816وارداتیں ہوئی ہیں ۔جبکہ 2سال قبل 478 وارداتیں سامنے آئی تھیںاس طرح گذشتہ دو سال میں مسلمانوں کے خلاف پرتشدد واقعات میں سو فیصد اضافہ ہوگیا مسلمانوں کے خلاف پر تشدد حملوں پر نظر رکھنے والی تنظیم ٹیل ماما کے مطابق خواتین اس قسم کے تشدد کا زیادہ نشانہ بنی ہیں اس تنظیم کا کہنا ہے کہ اس نسل پرستی یا اسلام فوبیا کا شکار زیادہ تر خواتین ہوئی ہیں۔
Man Arrest
اکتوبر 2015 کے دوسرے ہفتے میں ایک مسلم برطانوی طالب علم کو دہشت گرد کہہ کرصرف اس لیے پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا کہ اس طالب علم نے اسکول میں نماز پڑھنے کے لئے صرف ایک کمرہ یا کوئی جگہ مانگی تھی ابھی حال ہی میں ایک سکول نے اپنے مسلمان طلبا کو باہر سڑک پر نماز پڑھنے پر مجبور کیا جو برطانیہ جیسے ملک کے لیے شرم کا مقام ہے چونکہ با حجاب خواتین دور سے ہی نظر آجاتی ہیں اور ان کو دیکھتے ہی شرپسندوں کو بس ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ ان کو دہشت گرد کہہ کر مذاق اڑائیں’ٹیل ماما نام کی تنظیم کی ڈائریکٹر کے مطابق گلی محلے کی سطح پر جو مسلم خواتین حجاب میں یا سر پر دو پٹہ اوڑھے نظر آتی ہیں،ان کو زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے۔ظاہر ہے مسلم مردوں کے مقابلے میںخواتین اس لئے زیادہ نشانہ بنتی ہیں کہ ایک تو وہ با حجاب ہوتی ہیں اور دوسرے بچوں کے ساتھ بھی ہوتی ہیں ۔ اسلام فوبیا ذہن والے لوگوں کی یہ بزدلانہ سوچ ہوتی ہے کہ بچوں کے ہمراہ خواتین کو نشانہ بنانا مردوں کے مقابلے میں زیادہ آسان ہے ظاہر ہے نفرت کا اظہار ہی تو کرنا ہے ،اس کے لئے خواتین سے زیادہ بے ضرر اور آسان شکار کون ہوسکتا ہے۔مسلمان خود اپنے لئے اس نفرت کے کتنے ذمہ دار ہیں ،اس پر بھی بات کرنا ضروری ہے۔
جیسے جیسے دنیا میں مسلمانوں کے لئے نفرت بڑھتی جارہی ہے،ویسے ویسے مسلمان بھی اپنے خول میں سمٹتے جارہے ہیں۔آئی ایس آئی ایس ، بوکو حرام اور طالبان کی سرگرمیاں پوری دنیا میں مسلمانوں کے لئے نفرت اور اشتعال پیدا کررہی ہیں اور صرف ان چند تنظیموں اوران کی سرگرمیوں کی وجہ سے مسلمانوں پر پوری دنیا میں عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے۔پوری دنیا کاخصوصاََ مغربی دنیا کا میڈیا ایک سازش کے تخت مسلمانوں کوجاہل ‘گنوار دہشت گرد ،جنگجو اور خونخوار بنا کر پیش کررہا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خود مسلما ن بھی یہ احساس کریں کہ اس نفرت اور تعصب کے لئے وہ خود بھی کہیں نہ کہیں ذمہ دار ہیں یقینا کہیں تو ہم سے بھی غلطی ہورہی ہے اس پر ہمیں بھی سوچنا چاہئے کہ آخر یہ غلطی کہاں ہورہی ہے اور اس کا ازالہ کیسے کیا جائے۔
ساتھ ہی ان لوگوں کو بھی سوچنا چاہئے جو ان گنے چنے لوگوں کی غلطیوں کی وجہ سے پورے مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کردیتے ہیں اور اسلام کو دہشت گردوں کا مذہب کہتے ہیں حالانکہ اسلام نے تو پوری انسانیت کے لیے امن کا پیغام دیا ہے اور یہ اس قدر برد بار مذہب ہے کہ اس نے اقلیتوں کو بھی برابر کی آزادی حقوق اور انصاف دیا ہے جس کی تاریخ گواہ ہے۔”اشفاق احمد کہتے ہیں وہ دین کسی کو کیا نقصان پہنچائے گا جس میں راستے سے پتھر ہٹانے پر بھی ثواب ملتا ہو” لیکن اب باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت اس بردبرد مذہب اسلام کو بدنام کیا جارہا ہے اور اس کی روک تھام صرف اسی صوت میں کی جاسکتی ہے کہ مسلم امہ متحد ہواور اپنی کمزوریوں کو دور کرکے لسلام فوبیا کے خلاف موثر حکمت عملی اپنائیں اسلام فوبیا کے تدارک کی یہی ایک صورت ہے۔