آج کا انسان ایک ایسی دنیا میں زندہ ہے جس میں سہولیات کی بہتات ہے حالانکہ زمانہ قدیم میں جو دنیا تھی وہ بالکل سیدھی سادھی تھی اور انسانی زندگی بڑی سخت تھی۔ کڑے موسموں کی گرمی اور سردی میں بھی محنت اور مشقت کا عادی تھا ۔وہ سخت جان تھا اس لئے سب کچھ ہنس کر سہہ جاتا تھا۔ اپنوں کی محبت اسے ساری کلفتوں سے گزار دیتی تھی۔اپنی اولاد، اہلِ خانہ اور شریکِ حیات کا ایک تبسم اس میں نیا حوصلہ پیدا کر دیتا تھا اور وہ دل و جان سے ساری مشکلات کا مقابلہ کرنے کیلئے سینہ سپر ہو جاتا تھا۔اسے ذرائع آمدو رفت میںشدید مشکلات کا سامنا تھا۔انفارمیشن ٹیکنا لوجی نام کی کوئی شہ موجود نہیں تھی ۔رابطوں کا سخت فقدان تھا اور انسان محض خواب و خیال کی دنیا میں زندہ رہتا تھا۔دیارِ غیر میں رہنے والے لوگ فون کال کو ترستے تھے ۔باہمی رابطہ کا واحد ذریعہ خطوط ہوا کرتے تھے جبکہ ڈاک کی سست روی ایک دوسری کہانی پیش کرتی تھی۔میں نے اپنی آنکھوں سے عوام کو ڈاک خانوں میں ہفتوں خطوں کے انتظار میں آتے اور جاتے دیکھا ہوا ہے اور اداسی اور بے بسی کو ان کے چہروں سے ٹپکتے ہوئے دیکھا ہے۔
مایوس انسان کا چہرہ خود اس کی زبان بن جاتا ہے ۔امیدیں ٹوٹ جائیں تو انسان کا پژمردہ ہونا فطری ہوتا ہے اور یہ سب کچھ اس وقت کے معاشرے کا طرہِ امتیاز تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جس میں ہوائی جہاز نہیں تھے ، خلائی سیارے نہیں تھے،صنعت نہیں تھی،گاڑیاں نہیں تھیں، ٹیلیویژن نہیں تھا،کمپیوٹر نہیں تھا، لیزر سے علاج نہیں تھا،پیوند کاری نہیں تھی ، دل میں سٹنٹ ڈالنے کا کوئی تصور نہیں تھا،پرنٹنگ مشین نہیں تھی،فوٹو کاپی مشین نہیں تھی،ٹائپنگ کی سہولیات نہیں تھیں،چھاپہ خانہ نہیں تھا،ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا نظام نہیں تھا،موبائل فون نہیں تھے،کمیونیکیشن کا کوئی نظام نہیں تھا،ہوائی لہروں سے پیغام رسان کا کوئی ذریعہ نہیں تھا ، ایکسرے نہیں تھا اور انسان علاج معالجے کی جدید سہولیات سے محروم تھا ۔وہ چیچک،تپ دق اور یرقان جیسیی موذی بیماریوں کا تر نوالہ تھا۔کینسر ، شوگر اور برین ہیمرج کی بیماریوں نے اس کی زندگی اجیرن بنا رکھی تھی۔وہ حیران و شسدر تھا کہ متاعِ زندگی کو بچانے کیلئے جائے تو جائے کہاں؟۔،۔وہ مجبورِ محض تھا اور اسے کوئی راہ نہیں سوجھتی تھی۔بقولِ اقبال (نو امیدی زوالِ علم و عرفاں ہے ۔،۔ امیدِ مردِ مومن ہے خدا کے راز دانوں میں)
یہ تھی وہ کیفیت جس میں سائنسدانوں کی ایک قابلِ فخر نسل منظرِ عام پر آئی اور اپنی دیدہ ریزی سے انسانوں کی زندگیوں میں سہولیات کی راہیں کشادہ کیں ۔ایک طویل جدہ جہد کے بعد انسان کے ہاتھ کچھ اصول و ضوابط لگے جھنوں نے ترقی کی وہ راہیں کشادہ کیں جن میں آج ہم سانس لے رہے ہیں۔سائنسدان ملا کی نظر میں مجرم ٹھہرے۔ان کی ایجادات پر ملا نے جی بھر کر اعتراضات اٹھائے اور ان کی ایجادات کو کفر سے تعبیر کر دیا۔مذہب اور سائنس میں ایک جنگ شرع ہو گئی جو کئی صدیاں جاری رہی۔ملاکے شورو غوغہ اور چیخ و پکار کے باوجود سائنس آخرِ کار فتح یاب ہو گئی کیونکہ ترقی کا پہیہ مذہب کے نام پر روکا تو نہیں جا سکتا تھا۔
مسلمانوں نے اگر چہ جدید سائنس کی بنیادیں رکھیں تھیں لیکن ملا نے انھیں بھی اپنے غیض و غضب کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔یہ تھے وہ حالات جس میں علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں کہا تھا کہ( ہر دور کے انسان کو اپنے حا لا ت و واقعات او ر سچائیوں کے درمیان زندہ رہنا ہوتا ہے لہذا اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ بدلے ہوئے حالات کے مطابق اپنے قوانین مدون کرے تا کہ اسے بدلتے وقت کا ساتھ دینے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔انسانی کاوشیں بہر حال انسانی کاوشیں ہوتی ہیں اورغلطی و خطا و سے مبرا نہیں ہو تیں۔ان کاوشوں کو آنے والے ادوار کیلئے حجت نہیں بنایا جا سکتا۔کوئی بھی انسان اپنے ماحول ، روایات ،مشاہدات،واقعات اور اپنے مخصوص د ور سے آگے دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا)۔آج کا وہ دور جس میں ہم زندہ ہیں کیا آج سے ایک ہزار سال پہلے جنم لینے والی عظیم ہستیاں اس جدید دور کا ادراک کر سکتی تھیں؟بالکل نہیں ۔نئی نئی اٰیجادات نے کمال ہنر مندی سے انسانی اذہان کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔
پرانے ضابطے اور قوانین جو انسانی ذہانت کا کا ثمر سمجھے جاتے تھے موجودہ دور کیلئے بار آور نہیں۔علمِ سماء ، علمِ طب،علمِ ارضیات،علمِ نجوم،علمِ نفس،علمِ سائنس ، علمِ کمپیوٹر،علمِ ٹیکنالوجی اور دوسرے بہت سے علوم نے انسان کی ساری عادات و افعال کو نئی جہت عطا کر دی ہے۔علمی تفوق کی قوت سے یہ کرہِ ارض اندھیروں سے نکل کر روشنی میں نہا گیا ہے۔ آج کا انسان سینکڑوں سال قبل بنائے گے عقل و دانش کے قوانین اور ضا طوں میں جکڑا ہوا زند ہ نہیں رہ سکتا ۔قصے کہانیوں ،رجعت پسندانہ سوچ اور بے سرو پا فکر سے جنم لینی والے قوانین جدید دور کے تقاضوں کو پو را نہیں کر سکتے اس لئے انھیں بدلنا اور نئے ضابطوں کی تدوین کرنا انسانی فہم و ادراک کی ضرورت بن چکا ہے ۔،۔
کاغذ، چھاپہ خانہ اور کمپیوٹر کی ایجاد نے انسان کو ایک طرف فکری محاذ میں فہم و ادراک کی دولت سے متمیز کیا تو دوسری جانب پہیہ کی ایجاد نے اسے نیا حوصلہ عطاکیا۔آگ کی توانائی اور انجن کی تیاری نے اسے صنعتی ترقی کی جانب مائل کیا۔ہوائی جہاز سے برسوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہو نے لگا تو انسانی سوچ کو ایک جدید اور وسیع میدا ن میسر آگیا ۔ و یٹس اپ اور سکائپ جیسی ایجادات نے انسان کو ششدر کر دیا۔ٹیلیویژن اور یو ٹیوب نے علم و فن میں نئی راہیں کشادہ کیں۔یہ بات قدیم علماء کے حیطہِ ادراک سے ماوراء تھی کہ ایک دن انسان تصو یری فون کی سہولت سے بہرہ ورہو جائیگا۔یہ انسان کی بد قسمتی ہے کہ اسے آج بھی فرسودہ اور رجعت پسندانہ سوچ کا غلام بنانے کی مشق جاری ہے۔
غیر متبدل خدائی احکامات اور انسانی فکر میں جب تک حدِ فاصل قائم نہیں کی جاتی ہمیں انسان کی بے بسی کا صحیح ادراک نہیں ہوسکتا ۔ستم کی انتہا یہ ہے کہ آج کے انسان کو قدیم انسانی فکر کا مقلد بناکر اسے اس بات پر مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ سب کچھ بے چون و چرا تسلیم کر لے جو اسے ہزاروں سال قبل عطا کیا تھا۔انسانی کردار کی عظمت،پاکیزگی، طہارت،خوفِ الہی ،روح کی اجلتا،دور اندیشی اور انسانی بصیرت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن کیا اس کے معنی یہ لئے جائیں کہ پاکباز انسانوں کی فکر کو آنے والے انسانوں کیلئے لازم قرار دے دیا جائے۔
ہر لمحہ بدلتی دنیا میں یہ کیسے ممکن ہے کہ جدید دور کو قدیم سوچ کا اسیر بنادیا جائے ؟یورپی اقوام نے ایسی ہر سوچ سے خود کو آزاد کیا تو سائنسی میدان میں ایجادات کی موجب بنیں ۔کردار کی پاکیزگی، اس کی اجلتا اور خشیتِ الہی سے کسی کو بھی انکار کی مجال نہیں لیکن اعلی کردار کے پیکٹ میں انسانوں کو اپنی فکر کا غلام بنانے کی منطق سمجھ سے بالا تر ہے۔ایک زمانہ تھا کہ تصویر کو حرام قرار دیا جاتا تھالیکن وقت کے جبر کے سامنے اس اس سے دستکش ہونا پڑا کیونکہ اب ہر گھر میں ٹیلیویژن ، انٹر نیٹ اور کمپیوٹر ہے اور تصویروں کے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں لہذا اب تصویر حرام نہیں رہی ۔لائوڈ سپیکر کا بھی یہی حال تھا اسے حرام سمجھا جاتا تھا لیکن وقت کی مجبوری کے تحت اسے بھی حلال قرار دینا پڑا ۔ یہی وہ بات تھی جس کے پیشِ نظر علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں فقہی قوانین کا از سرِ نو جائزہ لینے کا مشورہ دیا تھا۔ان کی بات اس وقت تو بری لگی لیکن اس کے بغیر چارہ کار نہیں کیونکہ بدلتی دنیا میں قدیم فتاوی بے اثر ہو چکے ہیں اور نوجوان نسل بغاوت پر اتری ہوئی ہے ۔انسان کی بے بسی کی انتہا یہ ہے کہ وہ اپنے گرد خود حصار قائم کر لیتا ہے اور پھر دہائی دیتا ہے کہ میں اسیرِ پنجہِ استبداد ہوں۔اقبال کاکمال یہی ہے کہ وہ ا نتہائی چابکد ستی سے ایک شعر میں انتہائی پچیدہ مسئلہ کو بیان کر دیتا ہے۔(اک ولوہ تازہ دیا میں نے دلوں کو ۔، ۔ لاہور سے تا خاکِ بخارا سمر قند)۔،۔