تحریر : ایمن ہاشمی ایک شخص بہت ہی غریب تھا۔ اس نے اپنی بیوی سے مشورہ کیا کہ کسی رئیس آدمی کے ہاں غلامی کی جائے تاکہ یہ غربت دور ہو سکے۔ اسکی بیوی نے اجازت دے دی۔ اسکی بیوی کے ہاں ابھی پہلا بیٹا ہی پیدا ہونے والا تھا کہ وہ غریب آدمی اپنی بیوی کو بھری جوانی میں چھوڑکر غلامی میں چلا گیا۔ وہ پُر امید تھا کہ ایسا کرنے سے آنے والے بچے کا بہتر مستقبل بن جائے گا۔ وہ دور درزا ایک شہر میں چلا گیا اور 20 سال تک ایک رئیس آدمی کی خدمت کی۔ 20 سال بعد رئیس آدمی سے واپس جانے کی اجازت مانگی کہ وہ اب گھر جانا چاہتا ہے۔ رئیس آدمی سخی دل بھی تھا۔ اس نے بہت ساری بکریاں، گائے، بھینس اور اونٹ دیے او ر اسے امیر او ر دولت سے مالا مال کر کے واپس بھیجا۔ وہ واپس آ رہا تھاکہ صحرا سے گزر ہوا۔ راستے میں اسے ایک جھونپڑی نظر آئی۔ اس میں ایک درویش آدمی تھا۔ اس کے پاس رات گزاری۔ اس شخص نے رات کو درویش آدمی سے گزارش کی کہ وہ اسے کوئی نصیحت کرے۔ درویش نے کہا کہ میں نصیحت تو کروں گالیکن میں نصیحت کرنے کی قیمت وصول کرتا ہوں۔ اس نے قیمت پوچھی۔ درویش نے کہا کہ ہر نصیحت کے بدلے ایک اونٹ لوں گا۔ اس نے دل میں سوچا کہ میں مال دار ہوں ۔نصیحت مل جائے تو اونٹ کی کوئی بات نہیں۔ اس نے قیمت ادا کی۔ بزرگ نے نصیحت کی کہ ”جب بھی آسمان پر تارے ایک لائن میں دیکھو تو فوراََ کسی پہاڑ پر چلے جانا۔ سیلاب آئے گا”۔ اس شخص نے کہا کہ یہ نصیحت کسی کام کی نہیں۔ مجھے کوئی اور نصیحت کی جائے۔ درویش نے کہاکہ پھرقیمت ادا کرو اس شخص نے ایک اور اونٹ دے دیا۔ بزرگ نے کہا ” جب بھی کسی شخص کی آنکھوں میں شیطانی چمک دیکھو۔ تو اس سے بچنا وہ تمہیں قتل کر دے گا”۔ اس شخص نے کہا کہ یہ نصیحت بھی کسی کام کی نہیں۔ مجھے کوئی اور نصیحت کی جائے۔ درویش نے کہا کہ پھر قیمت ادا کرو۔ اس شخص نے ایک اور اونٹ بطور قیمت دے دیا۔
بزرگ نے پھر نصیحت کی کہ” رات کو پچھتا کر سو جانا لیکن کبھی بھی کسی انسان کو قتل نہ کرنا”۔ اس شخص نے سوچا کہ تین اونٹ ضائع ہو گئے۔اب مزید کیا نصیحت پوچھنی ہے لہذا چپ کر کے سو گیا۔ صبح وہ چل دیا۔ سفر لمبا ہونے کی وجہ سے اسے کسی ایک جگہ پڑائو کرنا تھا۔ وہ ایک گاوں میں پہنچتاہے۔ رات کو جب وہ سونے لگتا ہے تو آسمانوں پر دیکھتا ہے کہ تما م تارے ایک لائن میں آگئے ہیں۔ اسکو درویش کی نصیحت یاد آجاتی ہے۔ وہ شور مچاتا ہے۔” گائوں والو !پہاڑ پر چلو۔ سیلاب آنے والا ہے”۔ لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ وہ اپنا مال کھول کر پہاڑ پر لے جاتا ہے۔ اور سو جاتا ہے۔ صبح اٹھتا ہے تو دیکھتا ہے کہ نیچے سیلاب آگیا ہے اور سارے گاوں والے غرق ہو چکے ہیں۔ وہ کچھ دن پہاڑ پر رہتا ہے۔ سیلاب کا پانی اترتا ہے تو وہ اپنی منزل کی طرف چل پڑتا ہے۔ ایک اور گائوں میں پڑاو ڈالتا ہے۔ ایک شخص کے گھر قیام کرتا ہے۔ جو کہ باتیں کرنے میں بہت ہی اچھا معلوم ہوتا تھا لیکن اس کی آنکھوں میں وہی شیطانی چمک دکھائی دیتی ہے جسے دیکھ کر وہ چونک جاتا ہے۔ بزرگ کی نصیحت اسے یاد جاآتی ہے۔ رات کو اسی کش مکش میں اسے نیند نہیں آتی۔ وہ اٹھا اور بستر کو اس انداز سے پھیلا دیا کہ معلوم ہوتا تھا کہ کوئی سویا ہوا ہے۔ خود چھپ کر بیٹھ گیا۔ رات کے آخری پہر وہ آدمی آیا۔ اس کے ہاتھ میں خنجر تھا۔ اس نے بستر پر خنجر مارنا شروع کر دیا ۔ مسافر شخص نے اسکو پیچھے سے پکڑ کر مارنا شروع کردیا اور اسے باندھ دیا۔ پولیس کو بلایا اور اس کو پولیس کے حوالے کر دیا۔
آخر کار وہ رات کو اپنے گاوں میں پہنچتاہے۔ اپنے گھر پہنچ کر دیکھتا ہے کہ گھر میں اسکی بیوی کسی کڑیل نوجوان کے ساتھ والی چارپائی پر سوئی پڑی ہے۔ یہ دیکھ کر اسے بہت غصہ آیا اور دل میں خیال آیا کہ میں اس نوجوان کو قتل کر دوں۔ جیسے ہی وہ ارادہ کرتا ہے۔ اسے اس درویش کی بات یاد آتی ہے کہ” کبھی بھی قتل کر کے نہ سونا۔ پچھتا کر سوجانا”۔ وہ سوچتا ہے کہ پہلی بھی نصیحت کا م کر گئی۔ دوسری نصیحت نے بھی کام کیا ہے لہٰذا وہ چپ چاپ گائوں سے باہر آجاتا ہے۔ صبح ہو ئی۔ اس کے دل میں خیال آیا کہ گائوں والوں سے اپنا حال دریافت کروں۔ جیسے ہی گائوں میں جاتا ہے۔ اپنے بارے میں دریافت کرتاہے۔ گائوں والے بتاتے ہیںکہ وہ شخص بہت ہی غریب تھا۔ برسوں پہلے روزی روٹی کے لیے چلا گیا۔ اس نے مزید دریافت کیا کہ جب وہ جانے لگا تو بچہ ہونے والا تھا۔ گائوں والوں نے بتایاکہ ہاں اللہ نے اسے ایک بیٹا دیا ہے جو کہ اب کڑیل جوان ہو گیا ہے۔ اس کے ذہن میں آیا جو رات کو نوجوان تھا وہ میر ا ہی بیٹا تھا۔ جسے قتل کرنے کا خیال اس کے دل میں آیا تھا۔ وہ گھر گیا اور بیوی اور بیٹے سے ملا۔ تو دوستو! سچ ہی کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی بھی آپ کو اچھی نصیحت کرے تو اس کو پلَے سے باندھ لینا چاہیے۔اپنی گزارشات عرض کرنے سے پہلے اس تمہیدی کہانی کا ذکر کرنا اس لیے ضروری سمجھا کہ ہمارے ایک قابل ِ احترام لکھاری عرصہ دراز سے محترم ایڈ یٹوریل ایڈیٹرز کو ”کمال فن ِ ہوشیاری ”سے دھوکہ دیتے ہوئے اپنے کئی سالہ پرانے لکھے ہوئے مضامین تواتر سے چھپوانے میں مصروف تھے ۔ ان کی عظیم شخصیت اور وسیع صحافتی حلقہِ احباب کی وجہ سے کسی کا دھیان اس طرف نہیں جا رہا تھا ۔ اپنی اس دھوکہ دہی پر موصوف احساس ِ ندامت محسوس کرنے کی بجائے سوشل میڈیا پر جشن ِ فتح منانے میں ہی مصروف رہتے تھے۔
Pakistan Culture
موصوف نے عالمی دنوں، پاکستان کے قومی تہواروں ، معروف فلم سٹاروں ، شعرائ، ادیبوں، مقامات، جانوروں، پرندوں اور کھانے پینے والی اشیاء پر مضمون لکھ کر رکھے ہوئے تھے ۔جن کو سال کے بارہ مہینے، باون ہفتے ، تین سو پینسٹھ یوم وہی مضامین پورے اہتمام سے تسلسل سے” ری پبلش ”کروائے جا رہے تھے کہ چند دوستوں نے پوری تحقیق کے بعد اور ثبوت کے ساتھ بہت نیک نیتی سے ان کی توجہ اس صحافتی فراڈ کی طرف دلائی مگر موصوف نے اپنی اصلاح کی بجائے اسے اپنی جھوٹی انا کا مسلئہ بناتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ ” یہ تحریریں میری ذاتی ملکیت ہیں ۔ میں جب چاہوں ، جیسے چاہوں ، جس اخبار یا میگزین میں چاہوں شائع کروائوں” جس پر بعض دوستوں نے ایڈ یٹوریل ایڈیٹرز کی توجہ اس طرف دلائی کہ موصوف اپنا صدیوں پرانا تحریری مواد” ری پبلش” کروا رہا ہے ۔ جس پر نوے فیصد اخبارات کے ایڈ یٹوریل ایڈیٹرز نے ان کا پرانا مواد چھاپنا بند کر دیا۔راقم الحروف نے بھی جب اس مسئلے پر تحقیق کی تو یہ بات روز روشن کی طرح سچ ثابت ہوئی۔ جس پر راقم الحروف نے بھی پورے شواہد کے ساتھ ایڈ یٹوریل ایڈیٹرز کی توجہ اس طرف مبذول کروائی۔مجھے خوشی ہے کہ محترم ایڈ یٹوریل ایڈیٹرز نے شواہد دیکھ کر اتفاق کیااور اکثر اخبارات کی طرف سے جوابی میل میں اس بات کو سراہا گیا ۔مگر انتہائی افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ موصوف نے کسی کی بھی نصیحت پر عمل نہیں کیا اور اپنی روش پر قائم ہیں کیونکہ وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ایڈ یٹوریل ایڈیٹرز بہت مصروف ہوتے ہیں اوران کی خاطر سال بھر کے پرانے اخبارات کی چھان بین کر نا ان کے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔لہذا وہ پوری ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی سے اپنی ذاتی انا کی تسکین کے لیے اپنا صدیوں پرانا تحریری مواد ہی ارسال کرنے میں مصروف ہیں۔انتہائی معذرت کے ساتھ میرا سوال یہ ہے کہ کیامحترم ایڈ یٹوریل ایڈیٹرز کی مصروفیات سے ناجائز فائدہ اٹھانااخلاقی پستی کی علامت نہیں ؟ اس کو قلمکاری کہاجائے یا فن ِ اداکاری ؟ کم از کم مُجھ جیسی صحافت کی طالبہ تو اسے قلمکاری کا نام دینے سے قاصر ہے۔ اس سلسلے میں پہلے بھی کافی اصلاحی مضامین شائع ہو چکے ہیں اور موصوف سے یہ عرض کیا چکا ہے کہ اگر آپ کو اپنی تحریر و مقبولیت پر اتنا ہی ناز ہے تو پھر آپ اپنی پرانی تحریر کا عنوان کیوں تبدیل کرتے ہیں ؟؟ پہلی چند سطور کو کیوں بدلتے ہیں ؟ تاریخ کیوں چینچ کرتے ہیں؟۔
تیسری برسی پر لکھی ہوئی تحریر پر پانچویں برسی کے الفاظ کیوں تحریر کرتے ہیں؟ یہ کیوں نہیں لکھتے ہیں کہ دوہزار پندرہ والی تحریر جو دو ہزار سولہ میں بھی چھپ چکی ہے دو ہزار سترہ میں بھی ارسال خدمت ہے؟ ایڈ یٹوریل ایڈیٹرز کے نام جب آپ یہ لکھتے ہیں کہ فلاں کی برسی یا فلاں عالمی دن کے موقع پر خصوصی تحریر ارسال خدمت ہے۔ وہاں اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بھی تحریر کیا کریں کہ ” ماشاء اللہ یہ ہے وہ تحریر جو گزشتہ کئی سال سے مسلسل بھیج رہا ہوں”مگر آپ ایسا ہر گز نہیں کر رہے ہیں اور ایسا نہ کرنا دھوکہ و فریب میں آتا ہے کیونکہ سچ کو الفاظ کے پردے میں چھپانا بد ترین بدنیتی کے زمرے میں آتا ہے ۔نبی اکرم ۖ کا ارشاد ِ گرامی ہے کہ ” ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے ”اگر اللہ نے موصوف کو لکھنے کی صلاحیت سے نوازا ہے تو کچھ نیا لکھنا چاہیے کیونکہ سال بھر میں بہت ساری تبدلیاں رونما ہوتی ہیں جو نہ جانے کیوں اس موصوف کو ہی نظر نہیں آتی ہیں ورنہ باقی رائٹرز بھی ہیں نئی نئی تحقیقات اور حالات و واقعات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تبدلیوں کو سامنے رکھ کر لکھتے ہیں۔کچھ اور دوست رائٹرز بھی ان کی دیکھا دیکھی ایسا کر رہے تھے مگر قابل ِ تحسین ہے یہ بات کہ انہوں نے اپنا قبلہ درست کر لیا ہے اور وہ اب نیا لکھ کر اپنی صلاحیتوں کو جلا بخشنے اور قارئین کی معلومات میں اضافہ کر نے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں مگرموصوف ابھی تک” رٹا سسٹم ” سے باہر نکلنے کو تیار نہیں ہیں حالانکہ اس جدید دور میں ہر جگہ، ہر میدان ، ہر شعبے اور ہر فورم میں ” رٹاسسٹم” کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔
میری تمام قابل احترام ایڈ یٹوریل ایڈیٹرز سے بھی مودبانہ گزارش ہے کہ اس” رٹا سسٹم ”کی سختی سے بیخ کُنی کی جائے اور موصوف کو ہدایت کی جائے کہ موجودہ حالات واقعات کے تناظر میں کچھ نیا لکھا جائے اور اگر وہ نیا لکھنے اور پھر اسے” ان پیج” کرنے کی مشقت سے قاصر ہیں تو خدا کے لیے پھر صحافتی اقدار کی پائوں تلے پامالی کا سلسلہ بند کر دیں کیونکہ شعبہ ِ صحافت کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو قبل مسیح سے آج تک کوئی ایسا رائٹر نظر نہیں آتا جس نے سال کے بارہ مہینے، باون ہفتے ، تین سو پینسٹھ یوم وہی مضامین پورے اہتمام سے تسلسل سے” ری پبلش” کروائے ہوں جو اس نے زندگی میں صرف ایک بار ہی لکھے ہوں۔حرف ِ آخر کے طور ایک بات پھر دہراتی چلوں کہ موصوف ایک یا دو بار نہیں پورا سال ہی اپنے پرانے صدیوں پہلے لکھے مضامین ہی تاریخ وعنوان بدل کر” ری پبلش” کروا رہے ہیں۔ایک ان پڑھ آدمی درویش کی نصیحت پر عمل کر کے کامیاب و کامران ہو سکتا ہے تو ایک تعلیم یافتہ شخص کی طرف سے اچھی بات پر عمل کرنے سے گریز کیوں؟ ذرا نہیں پوری توجہ اور دلجمعی سے سوچیئے۔